• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی یہ ثابت ہی نہیں ہو پایا کہ وڈیو اصلی یا نقلی، لیکن مریم نواز خود ہی ملزم، خود ہی مدعی، خود ہی وکیل، خود ہی جج، وڈیو بھری پریس کانفرنس کھڑکا کر وڈیو خوشخبری بھرا جلسہ کر چکیں، قوم کو نواز شریف کے بری ہونے پر مبارکباد دے کر فرما چکیں ’’اب نواز شریف کو قانونی و اخلاقی طور پر جیل میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں‘‘، لیکن حیرت اس پر، مریم صاحبہ کا کہنا، عدلیہ نادیدہ قوتوں کے دباؤ میں، حکومت ان کے خلاف، پھر اتنا بڑا ثبوت ہاتھ لگا، کیوں ابھی تک اس انتظار میں کہ عدلیہ ہی نوٹس لے، کیوں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث وڈیو لیکر اسلام آباد ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ نہ پہنچے، حیر ت اس پر بھی، مریم نواز کا کہنا، ان کے پاس جج ارشد ملک کی 2وڈیوز، تین آڈیو ٹیپیں اور بھی، اگر ایسا ہے تو ان کی قسطوں میں تقریبِ رونمائی کیوں، ڈر، خوف کاہے کا، شریفس تو وہ جنہوں نے پانامہ لیکس کے پہلے دن سے پھٹے چک دیئے تھے، عدالتوں میں لڑائی لڑنے کے بجائے عدالتوں سے لڑائیاں لڑیں، ججز پر چڑھائیاں، فوج کو دھمکیاں، ایسی باجماعت لڑائیاں کہ سپریم کورٹ سے آواز آئی ’’ایسا تو گاڈ فادرز، سسلین مافیا کرے‘‘ مگر آج اتنا بڑا ثبوت پاس، ایک وڈیو مارکیٹ میں پھینک کر کس شے کا انتظار، یہ بلیک میلنگ، سودے بازی یا دال کالی۔

حیرت اس پر بھی، وہ نواز شریف جو اپنے بچاؤ کیلئے قومی اسمبلی میں ’جناب اسپیکر یہ ہیں وہ ذرائع‘ والی جھوٹی تقریر کر ڈالیں،جو اپنے بچاؤ کیلئے 3جھوٹی ٹی وی تقریریں ٹھوک دیں، جو اپنے بچاؤ کیلئے قطری خط لائیں، اپنے بچاؤ کیلئے خط سے مکر جائیں، جو اپنے بچاؤ کیلئے مشکوک کیلبری فونٹ اور جھوٹی ٹرسٹ ڈیڈ کہانیاں سنا دیں، جو اپنے بچاؤ کیلئے سب کچھ اپنے والد اور بیٹوں حسن، حسین پر ڈال دیں، اسی نواز شریف کو آڈیو، وڈیوز کی شکل میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے بلکہ 70سالہ تاریخ بدلنے، انقلاب کی بنیاد رکھنے، ووٹ کو عزت دینے اور سازشوں کو بے نقاب کرنے کا موقع ملے اور اتنی سستی، کاہلی، کہیں ایسا تو نہیں کہ عقلمند سمجھا چکے، صرف پریس کانفرنس میں وڈیو دکھانے سے عوام کو تو بے وقوف بنایا جاسکتا ہے، مگر اس سے نواز شریف کے کیس پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا، آڈیو، وڈیوز عدالت میں پیش ہوں گی، فرانزک آڈٹ ہوگا، مریم نواز، ناصر بٹ، جج صاحب، وڈیو بنانے والوں کو بلایا جائے گا، تفتیش، تحقیق کے مرحلے، صرف جذباتی تقریروں، جوشیلے بیانوں اور بچکانہ ٹویٹوں سے کام نہیں چلنے والا۔

باقی رہ گئی یہ بات کہ جج ارشد ملک نے دباؤ میں آکر نواز شریف کو سزادی تو ذرا پاناما کہانی ریوائنڈ کریں، سب کو معلوم، نواز شریف نے سب جھوٹی تقریریں اپنی مرضی سے کیں، سپریم کورٹ کو خط میاں صاحب نے خود لکھا، جے آئی ٹی نواز شریف کے وکلاء کی خواہش پر بنی، احتساب عدالت (ٹرائل کورٹ) میں کیس نواز شریف کے وکلاء کے کہنے پر آیا، جج بشیر سے جج ارشد ملک کے پاس کیس ٹرانسفر نواز شریف کی وکیل کی خواہش پر ہوا، اب آ جائیے العزیزیہ ریفرنس پر، وہی کیس جس میں جج ارشد ملک نے میاں صاحب کو سزا سنائی، 131صفحات کے العزیزیہ فیصلے میں، حسین نواز بتائے، میں نے 2001میں جلا وطنی کے دوران العزیزیہ مل سعود ی عرب میں لگائی مگر پیسہ کہاں سے آیا، کبھی کہے قرض لیا مگر قرض کا کوئی ریکارڈ نہیں، کبھی کہے دوستوں سے پیسے ادھار لئے مگر ادھار کا کوئی ریکارڈ نہیں، کبھی کہے کہ 1980میں دادا محمد شریف نے قطریوں کے ہاں سرمایہ کاری کی، وہی پیسے قطریوں سے لیکر کاروبار کیا، مگر نہ دادا کی قطریوں کے ہاں سرمایہ کاری کا کوئی ریکارڈ، نہ قطریوں کے پیسے دینے کا کوئی ریکارڈ، 80سماعتوں کے دوران شریفوں نے کوئی ایک گواہ پیش کیا نہ کوئی ایک ثبوت دیا، وہ منی ٹریل دینے میں ناکام رہے، ان کے پاس کوئی رسید نہ کوئی بینک ٹرانزیکشن، کسی نے سوال کا جواب اون اوتھ نہ دیا، کیونکہ اون اوتھ سوالوں کا جواب دیتے تو جو کہتے وہ ثابت کرنا پڑتا، العزیزیہ فیصلے میں، جب کاروبار ہو رہے تھے تب بچے چھوٹے، زیرِ تعلیم، ان کا کوئی ذریعہ معاش نہ تھا، والد کی زیرِ کفالت، میاں صاحب کا مؤقف جھوٹ پر مبنی، نواز شریف بدعنوانی کے مرتکب ہوئے، بیٹوں حسن، حسین کے ساتھ مل کر کرپشن کی، ہل میٹل کا 88فیصد منافع جو سوا ارب بنے، میاں صاحب نے وصول کیا، ہر بینک ٹرانزیکشن اور تمام چیک موجود، جب شریفس نے دو کمپنیاں 22ملین ڈالر کی خریدیں تب شریفس کے پاس ڈکلیئرڈ رقم 8لاکھ 60ہزار ڈالر تھی، میاں صاحب نہ صرف جان بوجھ کر خود تفتیشی کے سامنے پیش نہ ہوئے بلکہ منصوبہ بندی کے تحت بیٹوں کو لندن بھجوا دیا۔

اب آپ بتائیے، ایک کیس کی 80سماعتیں ہوں، جج پوچھ پوچھ کر تھک جائے کہ حضور ملیں کیسے لگیں، کاروبار کیلئے پیسہ کہاں سے آیا، سعودی عرب، یو اے ای، قطر، لندن پیسہ آتا جاتا رہا، کیوں ایک بینک ٹرانزیکشن، ایک رسید، ایک کاغذ نہیں، کوئی جواب نہ ملے، پھر یہ لطیفہ سن لیں، شریفوں کے اپنے ریکارڈ میں یہ تضاد، جن دنوں پاکستان دھڑا دھڑ منافع بھیجا جا رہا تھا، اُن دنوں سعودیہ، یو اے ای، لندن میں ملیں، کاروبار خسارے میں تھے، یہی سب دیکھ کر تو جسٹس کھوسہ اپنے فیصلے میں لکھیں ’’جس طرح کی ہاؤس آف شریفس نے وضاحتیں دیں، اس طرح کی وضاحتیں تو جنوں، پریوں کی کہانیوں میں ہی ملیں، قانون اندھا ہو سکتا ہے لیکن جج نہیں، نواز شریف، ان کے بچے چاہتے تھے کہ ہم ان کی جائیدادوں کی بیوقوفانہ وضاحتیں مان لیں، ہم وضاحتیں مانگ رہے تھے اور نواز شریف ملک کی سب سے بڑی عدالت سے جوا کھیل رہے تھے‘‘۔

یقین جانیے، جج امریکہ، برطانیہ کے بھی ہوں، العزیزیہ، فلیگ شپ کیسوں کا سو بار ٹرائل ہو، پھر بھی میاں صاحب اینڈ کمپنی کو سزا بلکہ عین ممکن دوبارہ ٹرائل ہونے پر العزیزیہ کے ساتھ ساتھ فلیگ شپ میں بھی سزا ہو جائے کیونکہ ان کے پاس کل دفاع کیلئے کچھ تھا نہ آج، کل بھی جھوٹ تیرا آسرا، آج بھی جھوٹ سے کام چلایا جا رہا، لیکن اس کے باوجود تمام آڈیو، وڈیوز کی حقیقتِ حال کا پتا چلنا چاہئے، یہ چھوڑیں کہ مریم نواز تاریخی جھوٹ بول چکیں، جعلسازی کر چکیں، اس وقت اہم آڈیو، وڈیو ز کی جانچ پڑتال، اصلی، نقلی کا پتا چلنا چاہئے۔

تازہ ترین