نابینا شخص پر بچے کے اغوا کا الزام
گوٹھ حیات خاصخیلی جغرافیائی لحاظ سے جھڈو کی ایک کالونی معلوم ہوتی ہے کیونکہ حیات خاصخیلی کے باشندوں کی کاروباری اور دیگر ضروریات زندگی جھڈو سے پوری ہوتی ہیں اور جھڈو کے متعدد باشندوں کے کاروبار گوٹھ حیات خاصخیلی میں جاری و ساری ہیں۔ تاہم اگر حیات خاصخیلی میں کوئی واردات پیش آ جائے تو معاملہ حیات خاصخیلی پولیس پوسٹ سے ہوتا ہوا پنگریو پولیس اسٹیشن اور اس سے آگے ایس ایس پی بدین کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ ضلعی ہیڈ کوارٹر سے تقریباً 65 کلومیٹر دور ہونے کی وجہ سے حیات خاص خیلی پولیس پوسٹ کے بعض اہل کار خود کو ماورائے قانون سمجھتے ہیں جب کہ انہیں اپنے حکام کی طرف سے بھی کسی جواب طلبی کا خوف نہیں ہوتا۔ حیات خاص خیلی پولیس چوکی کے اہل کار اس سلسلے میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ اکثر اوقات اپنی قانونی حدود سے باہر نکلتے ہوئے اختیارات سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ اکثر کیسوں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض اہل کاروں کی جرأت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ مبینہ طور پر سادہ لباس پہن کر خود بھی واردات کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
چند روز قبل، حیات خاص خیلی پولیس پوسٹ کے دو اہلکارراہ زنی کی واردات میں ملوث پائے گئے۔ اس واقعہ کی خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے جس نوجوان کو اپنا شکار بنایا تھا وہ علاقے کی ایک معروف سماجی شخصیت کا بیٹا تھا، جس کے باپ نے مذکورہ اہل کاروں کے خلاف اعلیٰ افسران کو شکایت کی تھی ۔ راہ زنی کی واردات کا یہ معاملہ اتنا سنگین بن گیا کہ مذکورہ اہل کاروں کو گرفتار کرلیا گیا اور انہیں اپنی پیٹی اترنے سے بچانے کے لیے درخواست گزار کے پاؤں پکڑنا پڑے تھے جب ان کی گلو خلاصی ہوسکی تھی۔
تین روز قبل اسی پولیس پوسٹ پرتعینات اہل کاروں نے جھڈو کے تین کاروباری افراد کو بلا جوازپکڑ لیا اور ان سے رہائی کے عوض رقم طلب کی۔ ان کے انکار کرنے پر انہیں دھمکی دی کہ اگر انہوں نے انہیں مطلوبہ رقم نہیں دی تو وہ انہیں بچہ اغوا کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیں گے۔ ان افراد میں بینائی سے محروم شخص عامر قائم خانی اور اس کے دو ساتھیوں ابراہیم اور ارسلان قائم خانی نے پولیس اہل کاروں کے مطالبے پر 25 ہزار روپے دے کر ان سے چھٹکارا حاصل کیا۔ گاؤں پہنچنے پر انہوں نے صحافیوں سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ وہ گزشتہ رات جھڈو پنگریو روڈ پر پتافی ٹیل اسٹاپ کے قریب لکڑی کا سودا کرنے جا رہے تھے کہ راستہ بھول گئے۔ وہاں مقامی باشندے لیموں لغاری نے انہیں راستہ سمجھایا لیکن اسی دوران حیات خاص خیلی پولیس چوکی کے اہل کار وہاں پہنچ گئے اور انہیں پکڑ لیا اور ان سےمبینہ طور پر رقم طلب کرتے ہوئے کہا کہ 25 ہزار روپے دو، ورنہ بچہ اغوا کرنے کا پرچہ کاٹ کر جیل میں ڈال دیں گے۔ متاثرین نے بتایا کہ مرحوم یوسف آرا مشین والے کا بیٹا، عامر قائم خانی نابینا ہے اور اسے سارا شہر جانتا ہے لیکن اس کے باوجود پولیس اہل کاروں نے انہیں ڈرا دھمکا کر رقم وصول کی۔
بتایا جاتا ہے کہ اس سے قبل بھی حیات خاص خیلی پولیس پوسٹ پر متعین بعض اہل کاروں کے ہاتھوں مسافروں کی تذلیل اور ڈرانے دھمکانے کی شکایات روز کا معمول بنی ہوئی ہیں جن کی وجہ سے مغرب کے بعد مقامی لوگ سفر کرنے سے گریز کرنے لگے ہیں۔ ایس ایس پی بدین کے بعض اقدامات پر انہیں سراہا جاتا ہے تاہم ان کے چند ماتحت اہل کار عوام کے لئے پریشانی کا سبب بنے ہوئے ہیں ، جن کی وجہ سے علاقہ مکین عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اس صورت حال پر پولیس حکام فوری نوٹس لیں اورپولیس کی وردی کی آڑ میں عوام کو ڈرانے دھمکانے، بلیک میل کرنے، رقوم بٹورنے اور راہ زنی کی مبینہ وارداتوں کا خاتمہ کرنے کے لئے کالی بھیڑوں کا صفایا کریں۔