• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اگلے وقتوں کی بات ہے کہ کچھ چھوٹے بڑے فوجی افسر اور اس خاکسار سمیت تین غیر فوجی اور ایک خاتون شہرہ آفاق مقدمے میں ماخوذ ہوئےجو راولپنڈی سازش کیس سے یاد کیا جاتاہے۔اس واحد مقدمے کیلئے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے ایک خاص قانون وضع کیا ۔ایک خاص عدالت قائم ہوئی جس کی کارروائی اب تک پردہ راز میں اس لئے ہے کہ اس قصے میں ہر فریق،منصف ،وکیل ،گواہ، عدالت کے پیش کاروغیرہ وغیرہ ،غرض ہر کوئی قانونی طورپر راز داری کا پابند کیا گیا تھا۔اس عجیب و غریب سازش کا ایک نادر پہلو تو یہی تھا کہ ہم میںسے بیشترلوگ باہم صورتِ آشنا بھی نہیں تھےاور ہم میں کچھ کی ملاقات پہلی بار جیل خانےہی میں ہوئی تھی۔ظفراللہ پوشنی سے بھی میری وہیں شناسائی ہوئی‘‘یہ اقتباس نابغہ روزگار فیض احمد فیض نے ظفراللہ پوشنی کی دلچسپ کتاب ’’زندگی زندہ دلی کا نام ہے‘‘کے نام کیا ہے۔ظفراللہ پوشنی فیض صاحب کے ہمراہ اس مقدمے میں پابند سلاسل تھے۔آگے بڑھنے سے قبل ان سطور کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے’’ سازش کا ایک نادر پہلو تو یہی تھا کہ ہم میں سے بیشترلوگ باہم صورت آشنا بھی نہیں تھےاور ہم میں کچھ کی ملاقات پہلی بار جیل خانےہی میں ہوئی تھی‘‘یہ سطورمخالفین کیخلاف مقدمات گھڑنے کی اُن تاریخی روایات کی یاد دلاتی ہیں جس سے تاامروز پاکستان نکل نہیں پایا ہے۔یہ کتاب 54۔1953کے دوران حیدرآباد جیل میں لکھی گئی۔حیدرآباد جیل ایسے ہی سات بڑے مقدمات کی خاموش گواہ ہے۔ یہ ساتوں مقدمات سازش اور غداری کے الزامات سے عبارت تھے۔پہلے مقدمے نے اُس وقت شہرت پائی جب حیدرآباد نیرون کوٹ کہلاتا تھا،میر نو رمحمد خان تالپور پر چارلس نیپئر نے جو مقدمہ چلایا تھا اُس میں میر صاحب کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔مولانا عبیداللہ سندھی اور ان کے 13ساتھیوں پر مقدمہ بھی یہیں چلا۔حُرتحریک کے نتیجے میں پیرپگارا بھی مقدمے تلے لائے گئے۔راولپنڈی سازش کیس سے موسوم مقدمے میں نامور کمیونسٹ رہنما سجاد ظہیر ،لیفٹیننٹ جنرل اکبر خان ،فیض احمد فیض ودیگر پر سازش کاالزام تھا۔سردار نوروزخان اور ان کے بعض ساتھیوں کو حیدرآباد جیل میں چلنے والے مقدمے کے نتیجے ہی میں سزائےموت دی گئی تھی۔حیدرآباد سازش کیس کے نام سے جو مقدمہ خان عبدالولی خان کےخلاف چلاتھا اُس میں58چوٹی کے سیاسی رہنما اس جیل میں دو سال تک پابند سلاسل رہے۔مشہور فرانسیسی مفکروالٹیر (Voltair)نے کہا تھا ’’آپ جو کہہ رہے ہیںمیں اس سے قطعی متفق نہیں ،لیکن آپ کے کہنے کے حق کیلئے میں اپنی جان بھی قربان کرسکتاہوں‘‘ اوریہی جمہوریت کی روح ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ فرنگی استعمار نے آزادی اظہار کاجہاں اپنے ہاںاہتمام کیا ،اُس کےقطعی برعکس عمل برصغیر کے باشندوں کیلئے روا رکھا،ایسے ان گنت مکروہات اُس نےغلامی کی زنجیروں کے دوام کی خاطردرست جانے۔تاریخ کا مگر نوحہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد پاکستان میں بھی یہ سلسلہ رُک نہ پایا۔جیسا کہ فیض صاحب نے لکھا’’ اس واحد مقدمے کیلئے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے ایک خاص قانون وضع کیا‘‘یعنی جو اسمبلی دستورساز ہووہ اپنا کام چھوڑ کر ’خاص قوانین‘وضع کرنے میں لگ گئی۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایک عرصے تک سرزمین بے آئین رہا،ہندوستان کی مجلس دستور ساز نے 26 نومبر 1949ء کو آئین منظور اور 26 جنوری 1950ء کو نافذ کیا ،پاکستان میں بننے والا1956کا آئین بھی صرف دو سال بعد بوٹوں تلے آگیا۔اس ملک میں جمہوریت پسندوں کے ساتھ کیا ہوا!ایک کالم میں اس المیہ داستان کو سمیٹنا ممکن نہیں، اس لئے حضرت میر کےکہے پر اکتفا کرتے ہیں۔

یہ توہم کا کارخانہ ہے

یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

ان دنوں بھی مقدمات در مقدمات کا طنطنہ ہے،ان کی شان وشوکت یہ ہے کہ ملزمان کی آئے روز رونمائی ہوتی ہے،اب وفاقی کابینہ کا اس پر پابندی کا فیصلہ والٹیر کے جمہوری فلسفے سے کتنی مطابقت رکھتا ہے،اس اجمال کا نقشہ اساتذہ واضح کر ہی رہے ہیں ، ہم یہاں ایک اور نکتہ کی جانب آپ کی توجہ چاہتےہیں۔سیاسی اسیران کی جو تاریخ مذکورہ بالا مقدمات سمیت باچاخان و مولانا مودودی سے لیکر چوہدری ظہور الٰہی و اسیران ِ ایم آرڈی تک آپہنچتی ہے، اس میں غداری جیسے سنگین الزامات سے لیکر بھینس چوری تک کے الزامات شامل ہیں لیکن کرپشن کا آج جیسا کوئی الزام موجود نہیں۔یہی وجہ ہےکہ یہ تمام کردار آج تاریخ کے صفحات پر جہاں زندہ ہیں،تویہ ضمیر کی عدالت میں سرخر وبھی،جیسا فیض صاحب نے کہا ہے۔

ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت

تو سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ اسیران کا ضمیر بھی شاداں ہے اور وہ بھی اسی طرح یاد رکھے جانے کے مستحق ہیں جس طرح داعیانِ راہ حق ہوتے ہیں!اپوزیشن کیلئے اس پر غور اس لئے بھی ضروری ہے کہ کوئی بھی تحریک اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک مقصد سے فکری وقلبی ربط نہ ہو،اور یہ ربط بیدار ضمیر کا ہی تقاضاکرتی ہے۔جہاں تک نئے پاکستان کی بات ہے ،تو حضرت جوش نے بھی گھٹن کی شکایت کی تھی، وائے ری قسمت کہ ایسا ہی شور آج بھی بلند بام ہے۔

نے بوئے گل نہ بادِ صبا مانگتے ہیں لوگ

وہ حبس ہے کہ لو کی دعامانگتے ہیں لوگ!

تازہ ترین