• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی پینتیس جماعتوں کے تشکیل پانے والے ’’عظیم کولیشن ‘‘نے پنجاب میں خواتین کو تحفظ دینے والے ایکٹ 2016 کو ستائیس مارچ تک واپس نہ لینے یا اُن کی ہدایت کے مطابق اس میں ترمیم نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج سے خبردار کیا ہے۔ کیا یہ اتفاق ہے کہ اسی تاریخ کو ممتاز قادری کا چہلم بھی ہے؟ہمارے دائیں بازو کے ایک گروہ کی مرکزی دلیل یہ ہے کہ گھر کی چار دیواری میں خواتین کو جسمانی سزا دینے سے روکنا غیر اسلامی فعل ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی عورت کو تشدد اور مارپیٹ سے بچانا دراصل مغرب کا شیطانی منصوبہ ہے جس کا مطلب ہماری خاندانی اقدار کی پامالی ہے۔ قدامت پرستوں کے کئی گروہوں میںجو قدر مشترک ہے وہ خواتین کو تحفظ دینے والے قانون ، ممتاز قادری کی پھانسی کی مذمت اورتحریک طالبان پاکستان کی فکری سرپرستی،نیشنل ایکشن پلان اور ضرب ِ عضب ، جس کی وجہ سے پاکستانی شہریوں اور سیکورٹی اہل کاروں کا خون بہانے والے ان کے ’بھٹکے ہوئے بھائی‘ اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں،اور ریاست کی طرف سے مدرسوں کو ریگولیٹ کرنے کے منصوبے کی مخالفت ہے۔ اس گروہ کو یہ بھی تشویش لاحق ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ریاست ان کے جہادی دستر خوان کی تمام بساط ہی لپیٹ دے۔
انتہا پسندوں کی اسی تنگ نظری اور محدود سوچ کی وجہ سے نہ صرف ملکی استحکام دائو پر لگ چکا ہے بلکہ ان کی دقیانوسی سوچ سے فروغ پانے والی عدم برداشت ملکی اور عالمی امن کے لئے خطرہ بن چکی ہے۔ ان کے نظریات میں قومیت پر مبنی ریاست کی گنجائش موجود نہیں کیونکہ ایک ایسی ریاست کسی نظریے کی بنیاد پر توسیع پسندی اور مہم جوئی کی اجازت نہیں دیتی۔ ان کے نظریات اس وقت نیشنل سیکورٹی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ ان کے اقلیتوں ، عورتوں اور انسانی حقوق کے متعلق نظریات آئین اور قانون کے مطابق عام شہری زندگی کے تصورات سے متصادم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تحفظ ِ خواتین بل میں ایسی کوئی شق نہیں جو مذہبی تعلیمات کے خلاف ہو، تاوقتیکہ آپ کے خیال میں مذہب آدمیوں کو خواتین پر تشدد کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس بل میں گھر میں خواتین پر کئے جانے والے تشدد کو مجرمانہ سرگرمی قرار دیتے ہوئے عدالت کو تشدد کا شکار خواتین کو بچانے کے لئے کئی ایک اقدمات اٹھانے کا اختیار دیاگیا ہے۔ اس کے لئے ایک اداراتی نظام وضع کیا گیا ہے جس کے ذریعے ہر ضلع میں خواتین کو تحفظ دینے والی کمیٹیاں، تحفظ کے مراکز اور دفاتر فعال ہوں گے ۔
ایسا نہیں کہ تمام قدامت پرست اپنی بیویوں کو زدوکوب کرتے ہوں لیکن ان کے کولیشن میں مرد کے اس حق کا دفاع کیا گیا ہے کہ شوہر گھر میں ڈسپلن سکھانے کے لئےایک حد تک جسمانی سزا کا حق رکھتا ہے۔ دلیل یہ دی گئی ہے کہ سزا کا حق ہمارے خاندانی نظام کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ دوسرے الفاظ میں تشدد یا تشدد کی دھمکی ہمارے خاندانی نظام کی اقدار کا حصہ ہے۔ درحقیقت یہ گروہ عورتوں پر تشدد کرنے کے لئے کوئی مذہبی دلیل دینے سے قاصر ہے ۔ مذہبی طبقےیہ کہہ رہے ہیں کہ خواتین کا مردوں سے ڈر کر رہنا ہمارے کلچر کا حصہ ہے، چنانچہ ہمیں اس کلچر کو ہر صورت محفوظ رکھنا ہے۔ ہماری اقدار تباہ کرنے کے لئے ’’مغرب کے شیطانی منصوبے‘‘ کی بات بھی محض عوام کے جذبات کو بھڑکانے کے لئے ہے ، وگرنہ ہمارےان بعض مولوی حضرات کو مغرب سے معاملہ طے کرنے میں کوئی عار نہیں۔ وکی لیکس پر ایک مولانا اور امریکی سفیر، این پیٹرسن کے درمیان ہونے والی گفتگو سے سب لوگ واقف ہیں۔ اس گفتگوکے ایک مرحلے پر مولانا نے امریکی سفیر سے کہا کہ’’ اگر وہ پاکستان کے وزیر ِ اعظم منتخب ہوجائیں تو کیا امریکی حکومت ان کے ساتھ ڈیل کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ مولانا نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکومت کو صر ف بے نظیر بھٹو پر ہی مکمل بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔ اُنھوں نے امریکی دورہ کرنے اور لابنگ کے لئے کانگریس کے ارکان سے ملنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا‘‘(Wikileak 131568)
پاکستان نے قدامت پرستوں کی طاقت اور اس کے پیدا کردہ مسائل میں بتدریج اضافہ دیکھا ہے۔ اس طاقت کے ذریعے مالی اور سیاسی فائدے اٹھانے کے پیچھے تین بنیادی عوامل کارفرما ہیں۔ پہلاسیاسی عمل کی تباہی ، جس کی ذمہ داری بھی کچھ مذہبی پارٹیوں پر عائد ہوتی ہےجو آمروں کو اپنی خدمات پیش کرتی رہی ہیں۔ دوسرانیشنل سیکورٹی پالیسی کے لئے غیر ریاستی عناصر کا استعمال اور یہاں بھی کچھ مولوی اور ان کے بعض مدرسے استعمال کئے گئے۔ تیسرا عامل ملک میں قانون کی حکمرانی کی انتہائی ناقص صورت ِحال ہے، حالانکہ معاشرے میں فروغ پانے والی منفی اقدار ، جیسا کہ خواتین اور کمزوروں پر تشدد، کے خاتمے کے لئے قانون کے طاقتور ہاتھ کی ضرورت تھی۔2015 ء نے پہلی مرتبہ دائیں بازوکی طاقت کو کم ہوتے ہوئے دیکھا ، چنانچہ اب وہ ممتاز قادری کو عدالت کی طرف سے ملنے والی سزا اور تحفظ ِ خواتین بل کی مخالفت کرتے ہوئے اس طاقت کو بحال کرنے کی شعوری کوشش میں ہے تاکہ ان کو ایشو بنا کر حکومت کو زچ کرسکے لیکن اس پر فوج کے خلاف صف آرا ہونے کا الزام نہ آئے۔ یہ طبقہ سمجھتا ہے کہ ا سٹریٹ فائٹ میں ہمیشہ طاقتور کی ہی جیت ہوتی ہے، چنانچہ وہ فوج کو اشتعال دلانے سے گریز کرے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ دینی طاقتوں کو دل سے انتہا پسندوںکے خلاف ہونے والے آپریشن پر انتہائی پریشانی ہے لیکن سانحہ پشاور کے بعد اب وہ کھل کر اس کے خلاف، یعنی دہشت گردوں کی حمایت میں، شور مچانے کے قابل نہیں رہے۔
ا س وقت انتہاپسندوں کے ایک طبقے کو بھی علم ہے کہ اُس کی معاشرے میں طاقت کم ہوچکی ہے اور وہ کبھی بھی انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کرسکے گا۔ چنانچہ اُن کے پاس انتخابات میں مرکزی سیاسی جماعتوں کے ساتھ دودوہاتھ کرنے کا آپشن موجود نہیں، چنانچہ وہ سیاسی حکومت سے گلیوں میں احتجاج کے ذریعے محاذ آرائی کرنے کا فیصلہ کرچکا ہے۔ سیاسی حکومت کے ساتھ ہونے والی لڑائی میں یقینا فوج غیر جانبدار رہے گی۔ انتہاپسندوںکو امید ہے کہ یہ نیشنل ایکشن پلان ملٹری ملا الائنس میں عارضی جدائی ہے۔ چنانچہ ایسے نازک مسائل کو ایشو بنا کر حکومت سے جنگ کرے جن میں اسے معاشرے کے بڑے طبقوں کی حمایت حاصل ہوسکے۔ چنانچہ خواتین کے تحفظ کے بل پر وہ اپنے کلچر کی آڑ میں جذبات برانگیختہ کرنے کی کوشش میں ہے۔
جہاں تک پی ایم ایل (ن) کا تعلق ہے تو وہ بھی کوئی لبرل پارٹی نہیں ، اور نہ ہی اس وقت وہ کسی لبرل ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے پا س ممتاز قادری کی سزا پر عمل درآمد کا آپشن موجود نہ تھا۔جہاں تک عورتوں اور بچوںکے خلاف زیادتی اور جرائم کی روک تھام کی بات ہے تو آئین میں یہ تحفظ بھی موجود ہے۔ جب عدالت سے ملنے والی سزا پر عمل درآمد اور آئین اور قانون کے تحت خواتین کو تحفظ دینے کا معاملہ بھی لبرل ازم اور سیکولر ذہنیت کے مترادف قرار دیا جائے تو اس پر ریاست کی فکری پسماندگی کا اندازہ لگانے کے لئے بہت دانشمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ پی ایم ایل (ن)اورشریف برادران کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ قدرے خطرات مول لے کر خواتین کے تحفظ کے اقدامات اٹھارہے ہیں۔ خواتین کے تحفظ کا بل یقینا ایک ترقی پسندانہ اقدام ہے۔ جہاں تک قدامت پرست طبقے کا تعلق ہے تو وہ اپنی طاقت کا تحفظ کرنے پر کمربستہ ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ اُسے ہمیشہ ہی تبدیلی سے ڈر لگتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اپنی خاندانی اور ثقافتی اقدار کا تحفظ کرنا ہے ، لیکن اس کے تمام پہلوئوں کا نہیں، کچھ منفی پہلو تبدیلی کے متقاضی ہیں۔ یقینا حسن ِسلوک، محبت، ادب، آداب اور خدمت اچھی اقدار ہیں،لیکن اگر خواتین کو کچھ آزادی اور مارپیٹ سے تحفظ دے دیا جائے تو ہماری کون سی اقدار کو خطرہ پہنچنے کا احتمال ہے؟انسانی تاریخ ارتقا پذیر ی کی گواہی دیتی ہے۔ وہ معاشرے جو تبدیلی اور ترقی کے خلاف مورچہ بند ہوجاتے ہیں، وہ بھی ضروریات کے ہاتھوں مجبور ہو کر تبدیلی کے راستہ پر چل نکلتے ہیں۔ شہریت ، نیشن اسٹیٹ اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں آئین ِ نو سے ڈرتے ہوئے زیادہ دیر تک طرز ِکہن پر اُڑے رہنا ممکن نہیں ہوگا۔
تازہ ترین