• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’پزل گیمز‘.... ضعیف عمری میں دماغ کو متحرک رکھتے ہیں

ایک حالیہ مطالعے نے اس بات کو مزید تقویت پہنچائی ہے کہ ’پزل گیمز‘ یعنی پہیلی یا معمہ حل کرنے والے کھیل یا سرگرمیاںدماغی صحت کیلئے مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔ ایک بین الاقوامی تحقیقی جرنل میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، 50برس سے زائدالعمر افراد ’سُڈوکو‘یا ’کراس ورڈز ‘وغیرہ جیسے پزل گیمز میں خود کو جس قدر مصروف رکھیں گے، ان کا دماغ اتنا ہی بہتر طور پر کام کرتا رہے گا۔

مطالعہ کا دائرہ کار

یہ مطالعہ برطانیہ میں 50برس سے زائد عمرکے 19ہزار ایک سو افراد پر کیا گیا ہے، جس کے دوران یہ دیکھا گیا کہ یہ افراد الفاظ، اعداد یا اشکال پر مشتمل معمے والی گیمز یا سرگرمیوں کو کتنا وقت دیتے ہیں۔ اس کے بعد ان پر کئی طبی معائنے کیے گئے، جس کا مقصد ان افراد میں توجہ مرکوز کرنے، یادداشت اور استدلال کی صلاحیتوں کو جانچنا تھا۔ محققین کے مطابق، نتائج سے ظاہر ہوا کہ وہ افراد جو پزل گیمز کھیلتے تھے، ان کے نتائج ایسے افراد کے مقابلے میں کہیں بہتر تھے، جو پزل گیمز میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔

مطالعے کے نتائج کی روشنی میں مزید کہا گیا ہے کہ جو افراد اپنا کچھ وقت پزل گیمز کھیلنے میں صرف کرتے ہیں، ان کا دماغ ان کی طبعی عمر کے مقابلے میں 10سال جوان ہوتا ہے۔ مزید برآں، مختصر مدتی یادداشت کے ٹیسٹ میں ایسے افراد کی عمر اِن کی طبعی عمر کے مقابلے میں 8سال جوان ہوتی ہے۔

مطالعے کے نتائج سے متعلق یونیورسٹی آف ایگزیٹر میڈیکل اسکول میں ڈیمینشیا کی لیکچرر اور متذکرہ ہذا مطالعے کی مصنفہ ڈاکٹر این کوربیٹ کا کہنا ہے، ’’نتائج سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ دماغی سرگرمیوں میں مصروف رہنے اور ان سے دور رہنے والوں کے درمیان خصوصی طور پر رفتار اور درستگی میںبڑا فرق پایا جاتا ہے۔ کئی معاملات میں فرق انتہائی ڈرامائی تھا‘‘۔

ماہرین کی آراء

ڈاکٹر کوربیٹ کہتی ہیں،’’اس مطالعے کی بنیاد پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان دماغی سرگرمیوں کے ذریعے زائد عمری میں ڈیمینشیا کے خطرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ مطالعہ ایک بار پھر ماضی کے ان تجربات کی تجدید ضرور کرتا ہے کہ لفظی اور عددی پہیلیوں پر مشتمل سرگرمیوں میں باضابطہ طور پر مشغول رہنے والے اذہان نسبتاً بڑی عمر تک بہتر طور پر کام کرتے رہنے کے قابل ہوتے ہیں‘‘۔

تاہم مطالعہ میں ابھی بھی ایک سوال کا جواب دستیاب نہیں ہے: طویل مدت میں پہیلی یا معمے حل کرنے والی سرگرمیاں کس طرح دماغی صحت پر اثرات مرتب کرتی ہیں اور آیا کہ یہ انسان کی ادراکی اور شعوری صلاحیتوں کو کمزور ہونے سے روکتی ہیں؟

اس حوالے سے مطالعے کے محققین، معمر افراد کے اسی گروہ کے ساتھ ایک ’فالو-اَپ‘ اسٹڈی کا انعقاد کرنا چاہتے ہیں۔

یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا کی پروفیسر ڈاکٹر جیری ڈی ایڈورڈز اپنے ردِعمل کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کرتی ہیں،’’چونکہ یہ مطالعہ بے ترتیبی کے بجائے باہمی تعلق کی بنیاد پر کیا گیا ہے ، اس لیے اس بات کو حتمی نہیں مانا جاسکتا کہ پزل گیمز کھیلنے سے ادراکی صلاحیتوں میں بہتری آتی ہے یا ان کی موجودہ استعداد برقرار رہتی ہے اور ان میں کمی نہیں آتی۔ اس کے برعکس یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پزل گیمز میں دراصل وہی لوگ دلچسپی لیتے ہوں، جن کی ادراکی صلاحیتیں بہتر ہوں۔ مزید برآں، یہ بھی ممکن ہے کہ جب ان کی ادراکی صلاحیتیں کم ہونے لگتی ہوں، وہ ان سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہوں کیونکہ کمزور ذہن والے افراد کے لیے یہ گیمز کھیلنا کافی مشکل ہوتا ہے‘‘۔ تاہم، وہ اس مطالعے سے اس حد تک ضرور اتفاق کرتی ہیں کہ ضعیف عمری میں ادراکی سرگرمیوں میں مشغول رہنا دماغی صلاحیتوں کو مزیدکمزور ہونے کے خلاف ایک طرح کی قوتِ مدافعت فراہم کرسکتا ہے۔وہ امریکا میں ہونے والی اس سے ملتی جلتی ایک اور تحقیق کا حوالہ بھی دیتی ہیں، جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ضعیف عمری میں کمزور پڑتی ادراکی صلاحیتیں متاثرہ افراد کے لائف اسٹائل، خصوصاً سماجی تعلقات اور سرگرمیوں میںکمی کا باعث بنتی ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر جیری ڈی ایڈورڈز کے برعکس ایریزونا میں واقع ’الزائمر پِری وَینشن اِنیشیٹو‘ کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر جیسیکا لینگبام، اس مطالعے سے اتفاق کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ادراکی صلاحیتوں کو اُبھارنے والی سرگرمیاں جیسے کہ پزل گیمز، ہماری سوچنے، توجہ مرتکز کرنے اور استدلال کی صلاحیتیں بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ ’’تاہم، ہم یہ نہیں جانتے کہ ان دو چیزوں میں براہِ راست تعلق ہے یا پھر کچھ دیگر عناصر کارفرما ہوتے ہیں‘‘، وہ کہتی ہیں۔

دماغی توازن

لیناکس ہِل ہاسپٹل، نیویارک میں یادداشت کی بے ترتیبی ( میموری ڈِس آرڈر) میں اسپیشلائزیشن کرنے والی نیورولاجسٹ ڈاکٹر گیاتری دیوی کہتی ہیں کہ دماغ اس وقت کام کرتا ہے جب دماغ کی ’پیتھالوجی‘ اور دماغ کی ’ادراکی استعداد‘ میں توازن ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’ ’جب دماغ کی پیتھالوجی غالب آجاتی ہے، جوکہ شدید ڈیمینشیا کی صورت میں ہوتی ہے، تب دماغ کی ادراکی صلاحیتوں کو اُبھارنے کی کوئی بھی کوشش اسے مزید بڑھنے سے روکنے سے قاصر ہوتی ہے۔ خوش قسمتی سے، ڈیمینشیا اور الزائمر کی اکثر اقسام سست رفتاری سے شدت پکڑتی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ادراکی صلاحیتوں کو اُبھارنے والی سرگرمیاں اختیار کرکے ڈیمینشیا کی علامات ظاہر ہونے میں تاخیر یا اس سے مکمل طور پر محفوظ رہ سکتے ہیں۔ فیصلہ کن بات یہ ہے کہ آپ جیسے جیسے ضعیف العمری کی طرف بڑھنے لگیں تو اپنے دماغ کو چیلنج کرنے والی سرگرمیوں میں زیادہ سے زیادہ مشغول رکھیں کیونکہ جب کوئی مشکل مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو دماغ کے تمام حصے اس کا حل تلاش کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں، جوکہ دماغ کے مجموعی ڈھانچے اور ادراکی ذخائر کو بہتر بنانےکے لیے اچھی مشق ہے‘‘۔

تازہ ترین