• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سود کا کاروبار: زندگی ختم ہوگئی لیکن قرضوں کا خاتمہ نہیں ہوا

جھڈو پولیس نے گزشتہ دنوں سود کے بڑے دھندے میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کیا اور قرض کے نام پر غریب عوام کا خون چوسنے والے تین معروف سود خوروں کو حراست میں لیا گیا ۔ لیکن پولیس کی یہ کارروائیاں یا تو نمائشی یا جوڑ توڑ کے لیے تھیں یا پھر مذکورہ افراد کو بااثر شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہے کیوں کہ حراست میں لئے گئے تینوں افرادچند گھنٹے بعد رہا کردئیے گئے ۔ سندھ کے دیگر شہروں کی طرح ،جھڈو میں بھی سود پر قرض کے لین دین کا کاروبار سالہا سال جاری ہے۔اس کاروبار میں پہلے ہندو ساہوکارمشہور تھے لیکن اب ان سے زیادہ بڑے کھلاڑی مسلمان سرمایہ دار ہیں ، بلکہ گھروں میں خواتین بھی سودی اعداد و شمار سے بہترین جالے بنتی ہیں۔ اس وقت جھڈو میں سینکڑوں افراد سود در سود کے منحوس گھن چکر میں پھنس کر کوڑی کوڑی کے محتاج ہوچکے ہیں لیکن سود کا آہنی شکنجہ انہیں آزاد کرنے پر آمادہ نہیں ہے ۔گزشتہ سال سندھ کے مختلف علاقوں میں تین ماہ میں41 افراد نے سود خوروں سے تنگ آکر خودکشیاں کیں۔ اس سلسلے میں تھر پارکرکے علاقے میں خواتین کے خودکشیاں کرنے کے واقعات بھی منظر عام پر آئے جس کا صوبائی حکومت کی جانب سے نوٹس بھی لیا گیاتھا لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

نمائندہ جنگ کو موصو ل ہونے والی اطلاعات کے مطابق ہزاروں سرکاری ملازمین اور متوسط طبقے کے افراد سود خوروں کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔اسکولوں کے سینکڑوں اساتذہ اور ٹاؤن کمیٹی کے متعدد ملازمین کی چیک بکس، مقامی لوگوں کی املاک و زرعی زمینوں کی دستاویزات اور بہن بیٹیوں کا زیور سونا بھی سودی قرض کے عیوض گروی پڑا ہوا ہے۔ سودخور عام لوگوں کوسود پر قرض لینے کی پرکشش ترغیبات دے کر اپنے جال میں پھانستے ہیں،سود کے بجائے قرض کے نام پر قانونی دستاویز لکھوا لیتے ہیں۔ اکثر شہروں اور گاؤں میں سود خوروں کا اہم شکار سرکاری ملازمین ہیں جو کسی مجبوری میں قرض لیتے ہیں۔ اس کے عوض سود خور ان کی پوری چیک بک کے بلینک چیکوں پر دستخط کراکے اپنے پاس رکھتے ہیں۔ ہر ماہ ان ملازمین کی تنخواہ یہ سود خور بینک سے اٹھا لیتے ہیں۔ گھر کا گزاراکرنے اور خرچہ چلانے کے لئے ان سرکاری ملازمین کو ان سودخوروں سے مزید قرضہ لینا پڑتا ہے ۔ یوں سود در سود کا یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ لوگ مر جاتے ہیں لیکن قرضہ نہیں اترتا۔

ہر ماہ تنخواہیں جاری ہونے کے موقع پر مذکورہ سود خور چیک بکس اور اے ٹی ایم کارڈز ساتھ لئے وصولیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جن پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ جھڈو سمیت پورے سندھ میں نہایت منظم طریقے سے بینکنگ سیکٹر کے متوازی ایک غیر قانونی مالیاتی نظام چلایا جارہا ہے جو کہ اسٹیٹ بینک کی حدود و قیود سے آزاد ہے اور اس دھندے کا کسی بھی ٹیکس سرکل میں کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔قرض پر دی گئی رقم پر شرح سود مقرر کرنا بھی سودخور کی مرضی پر منحصر ہے، قرض لینے والے شخص میں اس من مانی شرح سود سے انکار کی تاب نہیں ہوتی۔ یہ غیرقانونی مالیاتی نظام ریونیو سیکٹر کو بڑا دھچکا پہنچا رہا ہے جس کی روک تھام پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ۔ بتایا جاتا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے مقررہ شیڈول پر چلنے والے مالیاتی اداروں کا قرض جاری کرنے کا طےشدہ اصول ہوتا ہے جس کے تمام ضابطوں کی تکمیل میں اچھا خاصا وقت صرف ہوتا ہے لیکن نجی سودی نظام میں یہی کام گھنٹوں میں کرلیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ غیر قانونی کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے ۔

ذرائع کے مطابق جھڈو پولیس کے ہاتھوں پکڑے گئے سود خوروں میں سے ایک کے خلاف مقامی شہری نے لین دین کے معاملے پر تنگ کرنے سے تحفظ کی درخواست جمع کروائی تھی، جس پر ایس ایچ او صاحب کے زرخیز دماغ نے اپنے انداز میں سوچا اور پھر پولیس کی پکڑ دھکڑ کا نتیجہ یہ ہوا کہ سود خور،سود کے ساتھ ساتھ اصل زر سے بھی دست بردار ہوگیا اور درخواست کنندہ خوشی خوشی گھر کو لوٹ گیا۔ تاہم مذکورہ سود خور سمیت تینوں سود خوروں نے پولیس کو بھی ماہانہ حصہ پہنچانے کا وعدہ کرکے باعزت رہائی کا پروانہ حاصل کیا ، اس طرح تھانے کی مستقل دیہاڑی بھی پکی ہوگئی ۔ یہ صورت حال بینکنگ سیکٹرایف بی آر اور وزارت خزانہ کے منہ پر طمانچہ ہے جو عوام پر ٹیکس کا کوڑا برسا کر ان پر عرصہ حیات تنگ کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ سول سوسائٹی کی جانب سے اکثر و بیشتر اس کاروبار کے خلاف آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں۔ سو ل سوسائٹی کے نمائندوں کا اس غیرقانونی کاروبار کے بارے میں کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینگ ، ایف بی آر اور ایف آئی اے کو اسلام کی رو سے حرام کیے جانے والے اس کاروبار کی بندش کے لیے سخت اقدامات کرنا چاہئیں ۔انہوں نے کہا کہ اس کاروبار کے خلاف وزارت قانون باقاعدہ قانون سازی کرے جب کہ صوبائی و قومی اسمبلی سے سودی کاروبار کرنے والے نجی اداروں کے خلاف بل پاس کرایاجائے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین