• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ادب کبھی زندگی کے بہت سے شعبوں پر محیط تھا، مگر وقت کی تیز رفتاری نے جہاں ادب سے دُوری خود ادبی حلقوں میں پیدا کی، وہیں دیگر شعبوں میں بھی’’ ادب بے زاری‘‘ صاف جھلکتی ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ پردۂ سیمیں یا سنیما کی دنیا ،جسے عرفِ عام میں فلمی صنعت سے تعبیر کیا جاتا ہے،ادبی چاشنی کے بغیر فلم بنانے کا تصوّر بھی نہ رکھتی تھی اور اس کا سبب شاید یہ تھا کہ فلمی صنعت کے ابتدائی برسوں میں نہ صرف فلموں سے وابستہ لوگ ادب سےخاصی دل چسپی رکھتے تھے ،بلکہ فلمی شائقین میں بھی ادبی ذوق بدرجۂ اتم موجود تھا۔ یہاں تک کہ قیامِ پاکستان کے اوّلین برسوں میں اخبارات میں جو فلمی اشتہارات شایع ہوتے ، اُن میں بھی علمی و ادبی رنگ جھلکتا۔ مثال کے طور پر اُردو دنیا کے سب سے بڑے اخبار ’’روزنامہ جنگ ،کراچی‘‘ کی 5 ستمبر 1948 ء کی اشاعت میں صفحۂ اوّل پر اخبار کے زیریں حصّے میں ایک فلم کا اشتہار کچھ یوں شایع ہوا،’ ’جگرؔ،ساغرؔ،جوشؔ کا کلام پردۂ سیمیں پر سُنیے اور اس کے ساتھ فضلی برادرز کی مسلم سوشل فلم،’’ چورنگی‘‘ دیکھیے۔اشتہار اس بات کی غمّازی کرتا ہے کہ لوگ فلمی ستاروں کی بہ جائے شاعروں کے نام دیکھ کر سنیما ہاؤسز کا رُخ کریں۔ ظاہر ہے کہ 1948ء کے آس پاس جوشؔ،جگرؔ اور ساغرؔ ادبی دنیا پر چھائے ہوئے تھے اور لوگ اُن کے نام پر کھنچے چلے آتے تھےاور فلمی صنعت سے وابستہ افراد بھی یہ حقیقت جانتے تھے کہ شاعر و ادیب فلمی ستاروں کے مقابلے میں زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔ یہ صُورتِ حال اگلے ایک ڈیڑھ عشرے تک برقرار رہی۔ روزنامہ جنگ ہی میں 16دسمبر 1963کے فلمی ایڈیشن میں پاکستانی فلم ’’اِک تیرا سہارا‘‘ کا اشتہار شایع ہوا ۔ فلم کے ہیرو ، ہیروئن اُس زمانے کے معروف اداکار اور اداکارہ درپن اور شمیم آرا تھے۔ تاہم، انتہائی دل چسپ بات یہ ہے کہ فلمی ستاروںکے نام تو باریک حروف میں شایع ہوئے ،مگر انتہائی جَلی حروف میں’’گانے :قتیل شفائی اور حمایت علی شاعر‘‘ درج کیا گیا۔ یہ اس بات کی عکّاسی ہے کہ جس زمانے کا ذکر کیا جا رہا ہے، اُس میں قتیلؔ شفائی اور حمایت علی شاعرؔ ادبی اور فلمی منظر نامے کی ضرورت تھے۔ اُس زمانے کی فلموں کے مکالمات میںخاص طور پر زبان و بیان کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ مثال کے طور پر تقسیم ِ ہند سے قبل کے ایک فلم ساز ،ہدایت کار اور اداکار ، سہراب مودی نے بہت سی کام یاب فلمیں بنائیں۔ 1939 ء میں انہوں نے ایک تاریخی فلم ’’پکار‘‘ بنائی۔ شہنشاہ جہانگیر اور نورجہاں کے پس منظر میں بنائی گئی فلم کے مکالمے مشہور شاعر،کہانی نویس اور فلم ساز،کمال امرہوی نے تحریر کیے تھے۔ مکالمے اس حد تک مشہور ہوئے کہ برّصغیر کے ممتاز ترین افسانہ نگار، سعادت حسن منٹو نے اپنے ایک مضمون میں تحریر کیا’’فلم میں دو باتوں پر بہت زور تھا،مکالموں اور ملبوسات پر۔ مکالمے گو غیر فطری اور تھیٹر کا انداز لیے ہوئے تھے، لیکن بہت زور دار اور پُر شکوہ تھے ،جوسُننے والوں پر اثر انداز ہوتے تھے۔‘‘یہ ایک بڑے افسانہ نگار کا ایک کہانی نویس اور مکالمہ نگار کو خراجِ تحسین تھا۔فلم کے جو بہت سے مکالمے مشہور ہوئے، اُن میں ’’باادب،باملاحظہ، ہوشیار‘‘ اور ’’گوش بر آواز‘‘ جیسے ادبی مکالمے بھی شامل تھے۔ فلم کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ اس کے لیے کمال امروہوی نے یہ شرط عائد کی کہ اُن کا نام فلم کے پردے پر کہانی کار اور مکالمہ نگار کی حیثیت سے الگ سے دیا جائے۔ یہ تو ہوئی اشتہارات اور مکالموں کی بات۔ اب ایک نظر گزشتہ دَور کے فلمی نغموں، گیتوں پر ڈالتے ہیں۔یہ وہ نغمے اور گیت ہیں کہ جن میں ادبی چاشنی اور ادبی رنگ واضح طور پر جھلکتا ہےاور ایسا ہندوستانی اور پاکستانی دونوں فلموں میں یک ساںطور پر محسوس کیا جاتا ۔ یوں تو ادبی رنگ میں تحریر کیے گئے نغموں ، گیتوں کی تعداد اَن گِنت ہے،مگر ذیل میں کچھ منتخب نغمے پیش کیے جا رہے ہیں۔

ہدایت و کہانی کار، کمال امروہوی کی 1949میں بنائی گئی فلم ’’محل‘‘کا گانا’’آئے گا ،آئے گا ،آئے گا آنے والا، آئے گا‘‘جسے لتا منگیشکر نے گایا،مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا۔ گیت کے بول کچھ یوں ہیں ؎’’خاموش ہے زمانہ چپ چاپ ہیں ستارے…آرام سے ہے دنیا بے کل ہیںدل کے مارے… ایسے میں کوئی آہٹ اس طرح آ رہی ہے…جیسے کہ چل رہا ہے من میں کوئی ہمارے …یا دل دھڑک رہا ہے اِک آس کے سہارے …آئے گا آئے گا آئے گا آنے والا آئے گا…دیپک بغیر کیسے پروانے جل رہے ہیں…کوئی نہیں چلاتا اور تیر چل رہے ہیں…تڑپے گا کوئی کب تک بے آس بے سہارے …لیکن یہ کہہ رہے ہیں دل کے مرے اشارے …آئے گا آئے گا آئے گا آنے والا آئے گا۔‘‘نخشب جارچوی کے اس خوب صُورت گیت کوکھیم چند پرکاش نے موسیقی سے سجایا تھا۔ یہی وہ گانا بھی تھا کہ جس نے لتا منگیشکر پر فلم انڈسٹری کے دروازے پوری طرح کھول دئیے۔ 1953 ءکی پاکستانی فلم ’’گلنار‘‘ کا ایک گانا ،جسے نور جہاں نے گایا اور جس کی موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے مرتّب کی،قتیل ؔشفائی کے ایک خُوب صُورت گیت سے سجی تھی ؎’’لو چل دئیے وہ ہم کو تسلّی دئیے بغیر…اِک چاند چُھپ گیا ہے اُجالا کیے بغیر…اُن سے بچھڑ کے ہم کو تمنّا ہے موت کی…آتی نہیں ہے موت بھی لیکن جیے بغیر۔‘‘ 1958 ءمیں ریلیز ہونے والی ہندوستانی فلم ’’یہودی‘‘ کا ایک گانابھی بے حد مقبول ہوا، جسے مکیش نے گایا اور دلیپ کمار پر پکچرائز ہوا۔ مختصر بحر میں لکھے جانے والے اس گیت کو شلندرا نے تحریرکیا تھا ؎’’دل سے تجھ کو بے دلی ہے…مجھ کو ہے دل کا غرور…تُو یہ مانے کہ نہ مانے… لوگ مانیں گے ضرور…یہ میرا دیوانہ پن ہے…یا محبت کا سُرور…تُو نہ پہچانے تو ہے یہ …تیری نظروں کا قُصور۔‘‘1960ء کی ہندوستانی فلم ’’کوہِ نور‘‘ کا ایک گانا، جسے محمد رفیع نے گایا،بے پناہ مقبول ہوا۔ گیت نگار شکیل بدایونی تھے۔ گانا غزل کی تمام تر کیفیات کا حامل ہے۔ ؎’’دو ستاروں کا زمیں پر ہے ملن آج کی رات…مُسکراتا ہے اُمیدوں کا چمن آج کی رات…رنگ لائی ہے مرے دل کی لگن آج کی رات…ساری دنیا نظر آتی ہے دُلہن آج کی رات… حُسن والے تیری دنیا میں کوئی آیا ہے…تیرے دیدار کی حسرت بھی کوئی لایا ہے…توڑ دے توڑ دے پردے کا چلن آج کی رات…جن سے ملنے کی تمنّا تھی وہی آتے ہیں…چاند تارے میری راہوں میں بچھے جاتے ہیں…چومتا ہے مرے قدموں کو گگن آج کی رات۔‘‘ 1960ء میں ریلیز ہونے والی ہندوستانی فلم ’’چودھویں کا چاند‘‘ باکس آفس پر خاصی ہٹ ہوئی ۔ فلم کے مرکزی کردار گرودت اور وحیدہ رحمان نے ادا کیے۔تغزّل سے رَچی شاعری میں مقبولیت کی حدیں پار کرنے والا ایک گانا، جو آج سے لگ بھگ ساٹھ برس پیش ترگایا گیا، آج بھی سماعتوں میں رَس گھولتا ہے۔ گانے کا ایک ایک شعر شاعر، شکیل بدایونی کے تخیّل کا شاہ کار ہے۔ ؎ ’’چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو…جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو…زلفیں ہیں جیسے کاندھوں پہ بادل جھکے ہوئے…آنکھیں ہیں جیسے مے کے پیالے بھرے ہوئے …مستی ہے جس میں پیار کی تم وہ شباب ہو۔‘‘1960 ء میں بننے والی پاکستانی فلم ’’سہیلی ‘‘کو نہ صرف یہ کہ کئی اعزازات سے نوازا گیا، بلکہ اُس کے کئی گانے بھی بے حد مقبول ہوئے۔ درپن،نیّر سلطانہ اور شمیم آرا فلم کے مرکزی کردار تھے۔ اس فلم کا ایک گانا ،جو نسیم بیگم نے گایا،بہت مشہور ہوا۔اسے فیاض ہاشمی نےلکھا تھا، ؎’’ہم بھول گئے ہر بات مگر تِرا پیار نہیں بھولے… کیا کیا ہوا دل کے ساتھ مگر ترا پیار نہیں بھولے…بچپن کے ہم ساتھی دونوں سدا رہیںگےساتھ…ایک ہی سپنا جیسے دیکھیں دو آنکھیں دن رات…دنیا نے کہی سو بات مگر ترا پیار نہیں بھولے ۔‘‘1960 ء ہی میں بننے والی فلم ’’برسات کی رات‘‘ کا ایک گانا ، محمد رفیع نے گایا۔ انتہائی اعلیٰ درجے کی شاعری پر مشتمل اس گیت کو ساحر لدھیانوی نے تحریر کیا تھا، ؎’’زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات…ایک انجان حسینہ سے ملاقات کی رات… ہائے وہ ریشمی زلفوں سے برستا پانی…پھول سے گالوں پہ رُکنے کو ترستا پانی… دل میں طوفان اٹھاتے ہوئے جذبات کی رات …سُرخ آنچل کو دبا کر جو نچوڑا اُس نے…دل پہ جلتا ہوا اِک تیر سا چھوڑا اُس نے…آگ پانی میں لگاتی ہوئی حالات کی رات…میرے نغموں میں جو بستی ہے وہ تصویر تھی وہ… نوجوانی کے حَسیں خواب کی تعبیر تھی وہ …آسمانوں سے اتر آئی تھی جورات کی رات ۔‘‘اِسی گیت کو جواب آں غزل کے طور پر ہیروئن نے بھی گایااورگیت نگار نے ہیروئن کے لیے وہ الفاظ منتخب کیے ،جو ایک عورت کے دل کی آواز ہی ہو سکتے تھے۔ ؎’’زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات…ایک انجان مسافر سے ملاقات کی رات…ہائے جس رات میرے دل نے دھڑکنا سیکھا… شوخ جذبات نے سینے میں بھڑکنا سیکھا …میری تقدیر سے نکلی وہی کلمات کی رات…دل نے جب پیار کے رنگین فسانے چھیڑے… آنکھوں آنکھوں میں وفاؤں کے ترانے چھیڑے… سوگ میں ڈوب گئی آج وہ نغمات کی رات۔‘‘ ’’جب پیار کسی سے ہوتا ہے ‘‘کے عنوان سے ہندوستان میں ایک فلم 1961ء میں ریلیز ہوئی ۔ فلم کاایک گیت جسے حسرت جے پوری نے لکھا تھا ،کچھ یوں ہے،؎’’تیری زلفوں سے جدائی تو نہیں مانگی تھی… قید مانگی تھی رہائی تو نہیں مانگی تھی…میں نے کیا جُرم کیا آپ خفا ہو بیٹھے…پیار مانگا تھا خدائی تو نہیں مانگی تھی…میرا حق تھا تری آنکھوں کی چھلکتی مے پر…چیز اپنی تھی پرائی تو نہیں مانگی تھی۔‘‘

1961 ء ہی میں ہندوستانی فلم ’’سُسرال‘‘ ریلیز ہوئی۔ فلم کا ایک گانا اُردو غزل کی مثالی صورت ،یعنی ایک مشرقی عورت کے حُسن کی کمال درجہ شاعرانہ تصویر کشی کرتا نظر آتا ہے۔گیت کے بول تھے ؎’’تیری پیاری پیاری صُورت کو کسی کی نظر نہ لگے چشمِ بد دُور … مُکھڑے کو چھپا لو آنچل میں کہیں ،میری نظر نہ لگے چشمِ بد دُور…یوں نہ اکیلے پِھرا کر و سب کی نظر سے ڈرا کرو…پھول سے زیادہ نازک ہو تم چال سنبھل کر چلا کرو…زلفوں کو گرا لو گالوں پر موسم کی نظر نہ لگے چشمِ بد دُور…ایک جھلک جو پاتا ہے راہی وہیں رُک جاتا ہے… دیکھ کے تیرا رُوپ سلونا چاند بھی سر کو جھکاتا ہے…دیکھا نہ کرو تم آئینہ ،خود کی نظر نہ لگے چشمِ بد دُور۔‘‘شعری تلازمات کا اس گیت میں بدرجۂ اتم خیال رکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر’’ صورت، مکھڑا، آنچل، پھول، نازک، چال، زلفیں، گال، موسم، آئینہ ، نظر لگنا، وغیرہ وغیرہ ۔ محمّد رفیع کے گائے ہوئے اس گانے کو نہ صرف راتوں رات شہرت کی بلندیاں نصیب ہوئیں بلکہ اسی گانے پررفیع ’’کو بہترین پلے بیک سنگر‘‘کا ’’فلم فیئر ایوارڈ‘‘ بھی دیا گیا۔گیت کے تخلیق کار ،حسرتؔ جے پوری تھے۔ 1963ء کی ہندوستانی فلم ’’پراسمانی‘‘ کا گانا ،جسے محمد رفیع اور لتا منگیشکر نے گایا،آج بھی لوگوں میں بے حد مقبول ہے۔اسدبھوپالی کا لکھا ہوا گیت شاعرانہ خوبیوں سے عبارت تھا؎ ’’وہ جب یاد آئے، بہت یاد آئے…غمِ زندگی کے اندھیرے میں ہم نے…چراغِ محبّت جلائے بجھائے…آہٹیں جاگ اُٹھیں ،راستے ہنس دئیے …تھام کر دل اُٹھے ہم کسی کے لیے …کئی بار ایسا بھی دھوکا ہوا ہے …چلے آ رہے ہیں وہ نظریں جھکائے۔‘‘ 1964 ء میں بننے والی ہندوستانی فلم ’’لیڈر‘‘ کے لیے ایک گیت شکیل بدایونی نے تحریر کیا تھا۔ کلام کی پختگی کے ساتھ گانے کو محمد رفیع اور لتامنگیشکر نے تلفّظ کی کمال درجہ مہارت کے ساتھ گایا ۔ فلم کی موسیقی نوشاد نے ترتیب دی اور گانا دلیپ کمار اور وجنتی مالا پر پکچرائزہوا۔ ایک زمانے میں یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ نوشاد، شکیل بدایونی اور محمّد رفیع کی تثلیث بنے تو شاہ کار جنم لیتا ہے۔ یوں گیت کو شاہ کار تو بننا ہی تھا۔گیت کے بول تھے ؎ ’’اِک شہنشاہ نے بنوا کے حَسیں تاج محل…ساری دنیا کو محبّت کی نشانی دی ہے…اس کے سائے میں سداپیار کے چرچے ہوں گے…ختم جو ہو نہ سکے گی، وہ کہانی دی ہے…تاج وہ شمع ہے اُلفت کے صنم خانے کی …جس کے پروانوں میں مُفلس بھی ہیںزردار بھی ہیں…سنگِ مر مر میں سمائے ہوئے خوابوں کی قسم…مرحلے پیار کے آسان بھی دُشوار بھی ہیں…دل کو اِک جوش، ارادوں کو جوانی دی ہے…اِک شہنشاہ نے بنوا کے حَسیں تاج محل… ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے ۔‘‘اسی طرح ایک پاکستانی فلم ’’پائل کی جھنکار‘‘ 1966 ء میں بنی ، جس میں سلیم رضا کی گائی ہوئی ایک غزل، جودرپن اور نیلو پرپکچرائز کی گئی ،آواز اور کلام کی وجہ سے بے حد مقبول ہوئی، ؎’’ حُسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں…اُن کی صُورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں …اُف وہ مر مر سے تراشا ہوا شفّاف بدن…دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں۔‘‘یہ غزل قتیلؔ شفائی نے لکھی اور موسیقی رشید عطرے نے دی۔

1967 ءمیں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلا دیش)کی حَسین وادیوں میں بنائی گئی فلم ’’چکوری ‘‘ نے باکس آفس پر شان دار کام یابی حاصل کی تھی، ندیم اور شبانہ پر پکچرائز ہونے والی اس فلم کی کام یابی میں اچھی اداکاری،ہدایت کاری ،کردارنگاری اور کہانی کے علاوہ شاعرانہ گیتوں کا بھی بھرپور حصّہ تھا۔ فلم کے لیے اختر یوسف کے لکھے گئے ایک خُوب صُورت گیت کو،جسے روبن گھوش نے موسیقی سے اور مجیب عالم نےآواز سے سنوارا تھا،خاصی مقبولیت حاصل ہوئی، ؎ ’’وہ مِرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں… میرے ہر خواب کی تعبیر بنے بیٹھے ہیں…چاند ان آنکھوں کو دیکھے تو کنول بن جائے…رات ان ہونٹوں کو چھولے تو غزل بن جائے…اُن کی زلفوں کا حال مت پوچھو…مجھ سے میرا خیال مت پوچھو…

یہ تو اُلجھی ہوئی زنجیر بنے بیٹھے ہیں۔‘‘1968 ء میں ہندوستانی فلم ’’کنیادان ‘‘کا ایک گیت؎ ’’لکھے جو خط تجھے وہ تیری یاد میں ہزاروں رنگ کے نظارے بن گئے… سویرا جب ہوا تو پھول بن گئے ،جو رات آئی تو ستارے بن گئے‘‘بہت مقبول ہوا۔ ’’عندلیب‘‘وحید مراد اور شبنم کی وہ فلم تھی، جس نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑے۔ اس فلم کا ایک گانا ،جو شبنم اور وحید مراد پر پکچرائز ہوا،بے پناہ مقبولیت کا حامل قرار پایا۔؎ ’’ کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے…چُپ رہ کے بھی نظر میں ہیں پیار کے اشارے … یہ شانِ بے نیازی یہ بے رُخی کا عالم …بے بات ہو گیا ہے اُن کا مزاج برہم …اِک پَل میں ہم نے دیکھے کیا کیا حَسیں نظارے…قُربان جائیں اے دل ہم اُن کی اس ادا پہ…خود ہی سُلگ رہے ہیں ہم کو جلا جلا کے…ہیں کتنے خُوب صُورت اس آگ کے شرارے ۔‘‘ذرا غور کیجیے کہ اس گیت میں’’روٹھنا،پیار کا اشارہ،بےنیازی،بےرُخی،مزاج برہم ہونا،قُربان جانا،سُلگنا،آگ کے شرارے‘‘وغیرہ کا سہارا لے کرکس کمالِ مہارت سےشاعرانہ اصطلاحات کا استعمال کیا گیا ہے ۔اسی طرح 1969 ء کی فلم ’’دلِ بیتاب‘‘ کے لیے مہدی حسن اور نورجہاں نے ایک گانا گایا ،جو محمدعلی ،شمیم آرا اور یوسف خاں پر پکچرائز ہوا، ؎’’ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا… زندہ ہیں کتنے لوگ محبت کیے بغیر … گزرے دنوں میں جو کبھی گونجے تھے قہقہے…اب اپنے اختیار میں وہ بھی نہیں رہے… قسمت میں رہ گئی ہیں جو آہیں تو کیا ہوا…صدمہ یہ جھیلنا ہے شکایت کیے بغیر۔‘‘قتیل شفائی کا لکھایہ گانا آج بھی مقبول ہے۔1973 ء میں بننے والی فلم ’’بادل اور بجلی‘‘ میں مرکزی کردارندیم اور شبنم نے ادا کیےتھے۔ اس فلم کی ایک غزل، جسے فیاض ہاشمی نے حرف و لفظ سے سجایا اور حبیب ولی محمد نے اپنی آواز کا جادو جگایا،آج بھی سرحد کے دونوں اطراف مقبول ہے،؎ ’’آج جانے کی ضد نہ کرو …یوں ہی پہلو میں بیٹھے رہو…ہائے مر جائیں گے…ہم تو لُٹ جائیں گے…ایسی باتیں کیا نہ کرو…آج جانے کی ضد نہ کرو…تم ہی سوچو ذرا … کیوں نہ روکیں تمہیں …جان جاتی ہے جب…اُٹھ کے جاتے ہو تم…تم کو اپنی قسم جانِ جاں…بات اتنی مری مان لو…آج جانے کی ضد نہ کرو …یوں ہی پہلو میں بیٹھے رہو۔‘‘1974 ء کی ہندوستانی فلم ’’آپ کی قسم‘‘ کا ایک خُوب صُورت نغمہ ؎’’ زندگی کے سفر میں گزر جاتے ہیں جو مقام…وہ پھر نہیں آتے وہ پھر نہیں آتے…پھول کِھلتے ہیں لوگ ملتے ہیں مگر…پت جھڑ میں جو پھول مُرجھا جاتے ہیں…وہ بہاروں کے آنے سے کِھلتے نہیں…کچھ لوگ اِک روز جو بچھڑ جاتے ہیں…وہ ہزاروں کے آنے سے ملتے نہیں…عُمر بھر چاہے کوئی پکارا کرے اُن کا نام… وہ پھر نہیں آتے وہ پھر نہیں آتے ۔‘‘آنند بخشی نے تحریر کیااور موسیقار آر ڈی برمن تھے ۔یہ کشور کمار کے اَمَر ہو جانے والے گیتوں میں سے ایک سحر انگیز اور دل چُھولینے والاگیت ہے۔ ’’1942 اے لو اسٹوری ‘‘1994 کی ہندوستانی فلم ہے ،جس میں ایک گانا ،جسے جاوید اختر نے تحریر کیا،خُوب صُورت تشبیہات و استعارات سے پُر ہے۔ کمار سانوکی دل موہ لینے والی آواز سے سجا یہ گانا آج بھی یہ یاد دلاتا ہے کہ فلمی گیت نگاری بھی کبھی اعلیٰ شاعری سے سجی ہوتی تھی ؎ ’’ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا …جیسے کِھلتا گلاب…جیسے شاعر کا خواب… جیسے اُجلی کرن …جیسے بَن میں ہرن …جیسے چاندنی رات…جیسے نغمے کی بات …جیسے مندر میں ہو…ایک جلتا دیا… ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا … جیسے صبح کا رُوپ …جیسے سردی کی دُھوپ …جیسے بیناکی تان… جیسے رنگوں کی جان…جیسے بَل کھائے بیل…جیسے لہروں کا کھیل …جیسے خوش بو لیےآئے ٹھنڈی ہوا…ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا …جیسے ناچتا مور…جیسے ریشم کی ڈور…جیسے پریوں کا راگ…جیسے صندل کی آگ…جیسے سولہ سنگھار…جیسے رس کی پھوار… جیسے آہستہ آہستہ… بڑھتا نشہ… ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا ۔‘‘

’’عرش و فرش‘‘ شاعرِ انقلاب،جوشؔ ملیح آبادی کا مجموعۂ کلام ہے،جو تقسیمِ ہند سے پیش تر شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے میں جوشؔ کی ایک طویل نظم کا عنوان ہے ’’نامکمّل خاکے ‘‘اور اس پر سالِ اشاعت ہے 1944 ء ۔دیکھیے اس میں جوشؔ حُسن کی تعریف کس انداز میں کرتے ہیں۔(نظم میں سے وہ حصّہ پیش کیا جا رہا ہے ، جس میں جاوید اختر کے گیت کی کیفیت ہے)؎ ’’شوخیوں کی وہ دھوم رگ رگ میں…جیسے باراں میں جھومتے اشجار…چشم و رُخسار یوں تجلّی ریز…جس طرح شیشہ ہائے تاب گزار…رُوئے گُل ریز یوں عَرَق آلود …جیسے پُھولوں پہ بُوندیوں کا نکھار…یوں اُمنگوں کا رقص آنکھوں میں…جیسے ساغر میں ثابت و سیّار…نُور و ظُلمت کی عَشوہ کاری سے یوں دلآویز کاکُل و رُخسار…جیسے گوکُل کی شام کے سائے…جیسے گنگا کی صبح کے انوار… یوں تبسّم میں ولولوں کا ہجوم…جیسے شاہانِ ہند کا دربار…بات جیسے صدائے خندۂ گُل…چال جیسے خِرامِ ابرِ بہار…گردشِ چشم و جُنبشِ مژگاں …جیسے خوابوں میں رقصِ لیل و نہار…سبزہ و گُل پہ وہ لطیف خِرام …جیسے کوئی بجا رہا ہو ستار…نگہِ شوق سے وہ رُخ پہ حیا… جیسے شیشے کے متسّل بوچھار…پردۂ چشم میں نہاں یوں شوق…جیسے قندیل نہر کے اُس پار…موجِ انَفاسِ خواب آگیں سے…یوں مچلتا ہوا گلے کا ہار…جیسے انَوارِ صُبح، گرمِ خِرام…جیسے اَمواجِ بحر،ناہموار…صُبح کے نُقرئی دُھندلکے میں…رُوئے نا شُستہ پر وہ نیند نکھار…جیسے حافظؔ کی مست تانوں میں …کیف کا جوش،سر خوشی کا اُبھار۔ ‘‘

دوسری جانب فلموں میں مکالماتی نغمے بھی سیکڑوں کی تعداد میں بنائے گئے۔ماضی کی ہندوستانی اور پاکستانی فلموں میں اس قسم کے گانوں کو بھی بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ مذکورہ قسم کے گانوں میں بھی اعلیٰ ادبی ذوق کی شاعری دیکھنے کو ملتی تھی۔جیسے1959ءمیں بنائی گئی ہندوستانی فلم ’’دُھول کا پھول ‘‘ کے اس قسم کے ایک گانے کے بول کچھ یوں ہیں، ؎’’تیرے پیار کا آسرا چاہتا ہوں…وفا کر رہا ہوں وفا چاہتا ہوں…حسینوں سے عہدِ وفا چاہتے ہو…بڑے ناسمجھ ہو یہ کیا چاہتے ہو…تیرے نرم بالوں میں تارے سجا کے…تیرے شوخ قدموں میں کلیاں بچھا کے…محبت کا چھوٹا سا مندر بنا کے…تجھے رات دن پوجنا چاہتا ہوں…وفا کر رہا ہوں وفا چاہتا ہوں … تیرے پیار کا آسرا چاہتا ہوں… ذرا سوچ لو دل لگانے سے پہلے …کہ کھونا بھی پڑتا ہے پانے سے پہلے…اجازت تو لے لو زمانے سے پہلے …کہ تم حُسن کو پوجنا چاہتے ہو…بڑے ناسمجھ ہو یہ کیا چاہتے ہو۔‘‘ گیت نگار ساحر ؔ لدھیانوی کی خُوب صورت شاعری سے سجے اورسماعتوں کو بھلے لگنے والے اس گیت کو لتا منگیشکر اور مہندر کپور نے گایا تھا۔1972 ءمیں بننے والی ایک پاکستانی فلم ’’آؤ پیار کریں‘‘ کے ہیرو ، ہیروئن ندیم اور دیبا تھے۔ اس فلم کا ایک مکالماتی گانا’’؎ خُوب صُورت ہو تم، ہم بھی کچھ کم نہیں دیکھیے دل ہمارا نہ ٹھکرائیے۔ ‘‘شاعرانہ اعتبار سے انتہائی خوب صورت تھا۔ہیرواور ہیروئن کے درمیان گانے کا مقابلہ ہے اور دونوں ایک دوسرے کو شعر کی صورت جواب دے رہے ہیں ۔ گیت نگار ،کلیم عثمانی نے گیت میں فلم کی اس سچویشن کو بھرپور طور پر ذہن میں رکھا کہ حُسن اور عشق کے مکالمے میں عشق کا پلڑا بھاری رہے۔مکمل گیت یوں ہے؎’’خُوب صُورت ہو تم ،ہم بھی کچھ کم نہیں… دیکھیے دل ہمارا نہ ٹھکرائیے…جانتے ہیں تمہاری حقیقت کو ہم… جائیے منہ ہمارا نہ کھلوائیے …کاغذی پھول ہیں آج کل کے جواں …ان میں بُوئے وفا نام کو بھی نہیں…ہو جو فرصت کبھی آئینہ دیکھیے…اپنی حالت پہ خود آپ شرمائیے…یہ تو مانا کہ ہیں آپ جانِ چمن…ہم نے بخشا ہے لیکن یہ سب بانکپن…ہم نہ دیکھیں اگر پیار سے آپ کو …پھر کسے دیکھ کر آپ شرمائیے…ہم نے دی ہیں زمانے کو رنگینیاں…ہے ہمارے ہی دَم سے یہ دنیا حَسیں…ہم نہ آئیں اگر سامنے آپ کے…پھر کسے دیکھ کر شعر فرمائیے…پھول بنتی نہیں ہے کوئی بھی کلی…منہ نہ چومے اگر اُس کا بادِ صبا …عشق کے دَم سے ہے حُسن کی زندگی …ہو سکے تو ذرا غور فرمائیے…خُوب صُورت ہو تم ،ہم بھی کچھ کم نہیں…دیکھیے دل ہمارا نہ ٹھکرائیے۔‘‘

تازہ ترین
تازہ ترین