• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد میں ساٹھ ستّر جماعتوں کے تین چار سو کارکنوں کا دھرنا بارش کی نذر ہوگیا۔ چوہدری شجاعت حسین نے اسے دھرنی قرار دیا ہے۔ اس دھرنی نما دھرنے کا جتنا شور تھا۔ یہ اتنی ہی خاموشی سے انجام کو پہنچا۔ بہت سے کانگڑی پہلوان تو الیکشن کمیشن کے دفتر تک بھی نہ جاسکے۔ وہاں غیر منتخب لیاقت بلوچ اور سلیم ضیاء تھے۔ افسوس کہ یہی لوگ طاہر القادری کو غیرمنتخب ہونے کا طعنہ دیتے تھے۔ جس روز یہ دھرنی تھی اس روز اسلام آباد میں تیز بارش تھی۔ بارش تو ڈاکٹر قادری کے دھرنے کے روز بھی تھی مگر وہ کھڑے رہے اور ساٹھ ستّر جماعتوں کے چند سو کارکن بھاگ گئے۔ صورتحال اتنی مایوس کن تھی کہ اس شام جب کیپٹل ٹاک میں حامد میر نے خواجہ آصف سے تکرار کے ساتھ پوچھا تو خواجہ صاحب برہم نظر آئے۔ انہیں اس فیصلے پر ندامت تھی، بھرم رکھنے کے لئے انہوں نے اسی پر اکتفا کیا کہ میرا قائد صرف نواز شریف ہے۔چوہدری شجاعت حسین بڑے سیانے سیاستدان ہیں۔ انہوں نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ اسلام آباد کی تاریخ میں طاہر القادری سے بڑا دھرنا نہ پہلے کبھی ہوا ہے نہ آئندہ کبھی ہوگا۔ چوہدری صاحب کی بات سچ ثابت ہوئی ہے۔ ایسا ہوتا بھی کیوں نا، چوہدری شجاعت حسین صوفی کونسل کے چیئرمین رہے ہیں اور صوفیاء سے انہوں نے اتنا علم تو حاصل کر ہی لیا ہوگا جس میں کم از کم دھرنے یا دھرنی کا فرق پہلے سے معلوم ہوسکے۔ بہرکیف ن لیگ کی اس دھرنی کو دیکھ کر آئی آر آئی کو چاہئے کہ وہ اپنا ”چہرہ“ آئینے میں ضرور دیکھے کہ عوامی طاقت اور سروے رپورٹوں میں فرق ہوتا ہے۔جنگ کے یہ صفحات گواہ ہیں کہ میں نے پچھلے دو کالموں میں یہ تذکرہ کیا تھا کہ فی الحال الیکشن نظر نہیں آرہے مگر بعض لوگ بضد ہیں تو کیا کیا جائے۔ اب ”کامیاب“ دھرنی کے بعد میاں نواز شریف کو الیکشن کے التواء کی سازش نظر آنا شروع ہوگئی ہے حالانکہ میاں صاحب کو اس بات کا پہلے سے علم ہے مگر میاں صاحب ہر جادو کی کاٹ آصف علی زرداری سے کرانے کے عادی ہوگئے ہیں کچھ کاریگری اسحاق ڈار دکھاتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے لئے نوکریاں دینے کا عمل مسئلہ بنا ہوا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن نے نئی نوکریاں دینے پر پابندی عائد کردی ہے۔ ویسے پیپلز پارٹی بڑی سنجیدگی کے ساتھ الیکشن کی طرف رواں دواں ہے مگر پتہ نہیں کیوں بیچ میں سے رضا ربانی بول پڑتے ہیں کہ تین سالہ دور آرہا ہے، جمہوریت کے خلاف سازش ہورہی ہے وغیرہ وغیرہ۔جس طرح کے مطالبات ڈاکٹر طاہر القادری کے تھے، اس سے کچھ کم ن لیگ سمیت چند اور جماعتوں نے کردیئے ہیں۔ گورنروں اور افسروں کی تبدیلی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ دعوت کے باوجود عمران خان ، طاہر القادری کے دھرنے میں شریک نہیں ہوئے تھے مگر گزشتہ روز تحریک انصاف کے ایک مرکزی اجلاس کے بعد الیکشن کمیشن کی ازسرنو تشکیل کا مطالبہ کردیا گیا ہے۔ یہی وہ ایک مطالبہ تھا جس پر پارلیمینٹ میں موجود جماعتیں کہتی تھیں کہ یہ تو بالکل غیرآئینی بات ہے، اس پر تو بات نہیں ہوسکتی۔ خیر پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے تو اس پر بھی کنٹینر میں جاکر بات کرلی، ایک معاہدے پر دستخط بھی کرلئے مگر ن لیگ بضد تھی کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔
پچھلے تین روز ملک بھر میں بادل رہے، بارش رہی ، برف رہی ، تیز ہواؤں کا شور رہا، موسم کی یہ شدت سیاست کی گرمی کو کم نہ کرسکی۔ اس دوران جہاں دھرنی ہوئی، وہاں طاہر القادری نے انقلاب مارچ کا اعلان کردیا۔ کچھ باتیں بیرون ملک ہوتی رہیں۔ وہاں بھی جان دیو، رہن دیو کی صدائیں بلند ہوتی رہیں۔ پیپلز پارٹی نگرانوں کے نام سامنے لاتی رہی، تحریک انصاف نے بھی اجلاس کے ذریعے مطالبات کردیئے۔ طالبان نے مذاکرات کی پیشکش کردی اور ملک میں وہی قتل وغارت گری کا ماحول رہا۔ ہچکولے کھاتی معیشت کی تصویری جھلکیاں دکھاتی دیتی رہیں۔ پچھلے دنوں میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کا ایک انٹرویو روزنامہ جنگ کے ذریعے نظروں سے گزرا۔ مریم نواز نے خود کو بڑی متوازن اور سمجھدار سیاستدان ثابت کیا، ان کی گفتگو بڑی نپی تلی تھی، خیال ہے کہ میاں نواز شریف کی سیاسی جانشینی مریم نواز کا مقدر بنے گی۔پچھلے دنوں میں نے شادیوں پر ایک پروگرام دیکھا۔ میرے لئے یہ پروگرام اس لئے اہم تھا کہ شادی میرا پسندیدہ موضوع ہے بلکہ ایک مرتبہ میں نے زیادہ شادیوں پر روشنی ڈالی تو قومی اسمبلی کی رکن کشمالہ طارق مجھے کہنے لگیں کہ آپ تو اس معاملے میں بڑے پکّے مسلمان ہیں۔ میں نے انہیں جواباً ازراہ تفنن کہا کہ غلام مصطفی کھر اور میاں شہباز شریف بھی اسی کوچہ مسلمانی کے مکین ہیں۔ خیر میں ایک پروگرام کا تذکرہ رہا تھا جس کے ذریعے مجھے معلوم ہوا کہ حکیم الامت علامہ اقبال  کے نواسے میاں یوسف صلاح الدین دوشادیوں کی ناکامی کے بعد آج کل اکیلے زندگی گزارتے ہیں۔ پہلے تو مجھے دکھ ہوا مگر پھر یہ سوچ کر تسلی ہوگئی کہ کوئی بات نہیں میاں صاحب ہفتے میں دو تین مرتبہ اپنے ہاں رنگوں سے بھرپور محفل سجالیتے ہیں، جس میں اچھی آوازیں اور چاند چہرے نمایاں ہوتے ہیں۔ پروگرام میں عظمیٰ بخاری ایم پی اے کی محبت کی شادی کا ذکر بھی ہوا مگر سب سے دردناک کہانی عائلہ ملک کی تھی۔ اس دل توڑ دینے والی دردناک کہانی کا تذکرہ آگے چل کر کروں گا۔ پہلے اس پروگرام سے باہر کی شادیوں کا ذکر کرلوں۔ شادی محبت کی ہونی چاہئے یا نہیں، میں اس بحث میں تو نہیں پڑتا مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ میرے علاوہ میرے کچھ دوستوں نے ایک سے زائد شادیاں کر رکھی ہیں۔ میری پیاری دوست شیری رحمٰن کی تیسری شادی کامیابی سے چل رہی ہے۔ اسی طرح ہماری لکھاری دوست تہمینہ درانی کی بھی تیسری شادی کامیابی سے چل رہی ہے۔ میرے کچھ دوستوں نے شادیاں نہیں بھی کیں مثلاً پیر مرشد سید دلاور عباس اچھے بھلے سینیٹر ہونے کے باوجود شادی نہیں کرسکے۔ شیخ رشید احمد بھی شادی سے گریزاں رہے۔ میری سفارت کار دوست تسنیم اسلم نے شادی نہیں کی۔ اسی طرح قومی اسمبلی کی رکن تسنیم صدیقی نے بھی شادی کا روگ نہیں پالا۔ سینیٹر صغریٰ امام سے میری کبھی کبھار اس موضوع پر بات ہوتی ہے کہ وہ ابھی تک کنواری ہیں۔اب آتے ہیں عائلہ ملک کی دردناک کہانی کی طرف۔ عائلہ ملک ، نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان کی پوتی، ملک اللہ یار کی بیٹی اور سابق صدر فاروق لغاری مرحوم کی بھانجی ہیں۔ بوہڑ بنگلہ کی رہائشی یہ لڑکی بچپن ہی سے عورتوں کی ترقی کی قائل تھی۔ عائلہ ملک کا کوئی بھائی نہیں ہے۔ چار بہنوں میں تیسری پوزیشن کی حامل عائلہ ملک کھلاڑی تھی۔ وہ ٹینس قومی سطح پر کھیلی، روس میں بھی تعلیم حاصل کرتی رہی، گھڑ سواری کی، شکار کیا اور اعلیٰ تعلیم کے بعد ارینج میرج ہوگئی۔ دکھ ملے تو علیحدگی ہوگئی۔ پھر کچھ سالوں بعد یار محمد رند سے شادی کی، رند صاحب نے ایک ماڈرن اور خوش شکل لڑکی کو قیدی بنادیا۔ دو سال کے بعد عائلہ ملک نے قید سے رہائی پائی، قید کسی کو پیاری نہیں ہوتی، قید سے تو پرندے بھی نفرت کرتے ہیں۔ اگرچہ عائلہ ملک کی دوسری شادی محبت کی تھی مگر قید تو محبت میں بھی پیاری نہیں لگتی۔ اب وہ دو شادیوں کی ناکامی کے بعد تنہائی کا احساس لئے ملک کی عورتوں کی تقدیر بدلنا چاہتی ہیں، سیاست کرنا چاہتی ہیں اور بقول ان کے ٹرافی بن کر کہیں نہیں رہنا چاہتیں۔
جتنی عائلہ ملک دکھی ہیں میں کاغذ پر اتنے دکھ نہیں لکھ سکتا مگر دعاگو ہوں کہ پاکستانی معاشرے میں عورت ترقی کرے کہ یہی اسلام کا درس ہے۔
تازہ ترین