سڑکوں پر اوباش نوجوانوں کے گروہ سرگرم
اندرون سندھ اسکول اور مدارس میںزیر تعلیم طلباء و طالبات اور کمسن بچوں کو اوباش افراد کی طرف سے راہ چلتے ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے اورروزانہ شرم ناک واقعات رونما ہورہے ہیں۔ پولیس بعض افراد کوگرفتار کرنے میں کامیاب ہوئی ہےجب کہ زیادہ تر افراداس کی قانون کی گرفت میں آنے سے محفوظ ہیں۔تفصیلات کے مطابق جھڈوشہر میں ایک ہفتہ کے دوران دو واقعات ایسے رونما ہوئے جن میں اوباش نوجوانوں نے اسکول سے واپس آنے والی طالبات کو راستے میں روک کران سے دست درازی کی کوشش کی تاہم وہاں موجود لوگوں کی مداخلت کی وجہ سے وہ فرار ہوگئے۔ جھڈو کی غلام حسین کالونی میں11 سالہ بچی جومدرسہ کی چھٹی کے بعدگھر لوٹ رہی تھی، راستے میں عرفان نامی نوجوان نے مبینہ طور پر، اس سے چھیڑ خانی کی۔ بچی نے اس کی زد سے بچنے کے لیے قریبی گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر مددطلب کی، جس پر مذکورہ نوجوان نے راہ فرار اختیار کی۔بچی کی نشان دہی پر اس کے والد نے اہل محلہ کےہم راہ پولیس اسٹیشن جاکر اوباش نوجوان کے خلاف رپورٹ درج کرادی ۔ ایس ایچ او نے فوری طور سے نوٹس لیتے ہوئے ملزم کو گرفتار کرکے لاک اپ میں بند کردیا۔
دوسرا واقعہ اسکول کی ایک نوجوان طالبہ کے ساتھ پیش آیا جب اسکول جاتے ہوئے راستے میں شہزاد نامی اوباش نوجوان نے اس سے دست درازی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دھمکی دی کہ مجھ سے دوستی کرلو ورنہ میں تمہاری زندگی تنگ کردوں گا۔طالبہ نے مزاحمت کرتے ہوئے شور شرابا کیا جس سے گھبرا کرمذکورہ ملزم فرار ہوگیا۔ طالبہ کے والد کی مدعیت میں اوباش نوجوان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیاہے۔ جھڈو اور گردونواح میں اس نوع کے واقعات میں پریشان کن حد تک اضافہ ہو گیا ہے جس سے بچوں کی تعلیم پر بداثرات مرتب ہورہے ہیں۔طلبہ ، طالبات اور کمسن بچے عدم تحفظ کا شکار ہو نے کی وجہ سے درس و تدریس پر توجہ نہیں دے پارہے، جب کہ والدین اپنی تمام مصروفیات ترک کر کے بچوں کو اسکول اور مدرسہ میں چھوڑ کر آنے اور چھٹی میں واپس لے کر آنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔باخبر درائع کے مطابق ، سرکاری اور نجی اسکولوں کے راستوں میں اوباش لڑکوں کے گروہ دو دو کی ٹولیوں میں موٹر سائیکلوں پرگشت کرتے ہوئے طالبات کو ہراساں کرتے ہیں جب کہ انہی میںسے بعض نوجوان موبائل فون کے ذریعے گزرنے والی طالبات کی تصاویر بنا کر انہیںسوشل میڈیا پر وائرل کرنے کی دھمکیاں دے کر مذکورہ طالبات کو بلیک میل کرکے اپنے مذموم مقاصد پورے کرتےہیں ۔
واضح رہے کہ طلبا و طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات دو سال قبل بھی رونما ہوئے تھے،لیکن اس وقت تعینات ،ایس ایچ او شاہ نواز خاصخیلی نےوالدین اور سول سوسائٹی کی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے سخت ایکشن لیا تھاجس کے بعد ان واقعات کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ ان کے تبادلے کے بعد اوباش نوجوانوں کے گروہ دوبارہ سرگرم ہوگئے ہیں جن کے خلاف سابقہ طرز کے آپریشن کی ضرورت ہے تاکہ طلبا ہ طالبات اور والدین کو ڈیپریشن سے بچایا جاسکے۔