• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


بھارت میں ہندو بنیاد پرستی کا غلبہ جنونی ہندوئوں کے ہاتھوں بابری مسجد کے انہدام، پھر اس پر بھارتی عدلیہ کی نوٹس ایبل معاونت سے تیز تر ہوا۔ اب یہ قومی سیاست کو اپنی لپیٹ میں لیتا اپنے مقبول اقتدار کی پہلی مدت پورا کرتا، دوسری مدت کے لئے ہیوی مینڈیٹ کا حامل ہے۔ اس کے دو بڑے نتائج مکمل سامنے آگئے ہیں جو جنوبی ایشیا کے پورے خطے (دنیا کیلئے بھی) خصوصاً بھارت کیلئے انتہائی پُرخطر ہیں۔ ایک یہ کہ بھارت کا بطور ماڈرن سیکولر جمہوریہ عالمی تشخص ملیا میٹ ہو گیا، بھارت عملاً نظریاتی بنیاد پر ذہنناً تقسیم ہو گیا۔ دوسرا یہ کہ اس کا اسمارٹ اور دنیا میں سب سے مفصل آئین، جو بھارت کے ہر بحران کے لئے شاک آبزرور ثابت ہوتا رہا، کی عملداری بے جان ہوگئی اور اب وزیراعظم مودی نے اپنے ہیوی مینڈیٹ ہونے کے خطرناک اعتماد سے تنازع کشمیر کی عالمی طور پر تسلیم شدہ جداگانہ آئینی حیثیت سے متعلق آرٹیکلز 370اور 35اے کو ختم کرکے، مقبوضہ کشمیر کے پہلے سے بنے ’’فلیش پوائنٹ‘‘ (بقول سابق امریکی صدر کلنٹن) پر فیول چھڑک کر پورے خطے کو الائو میں تبدیل کر دیا ہے۔

خاکسار کا مسئلہ کشمیر کے تاریخی پس منظر کے مطالعہ کی روشنی میں کوئی ڈیڑھ عشرہ قبل تیار کیا بیانیہ یہ ہے کہ ’’مسئلہ کشمیر کی حقیقت یہ ہے کہ بھارت اپنی عسکری طاقت سے اپنے زیر قبضہ کشمیر پر قبضے کی اور پاکستان اسے بطور مسئلہ قائم دائم رکھنے کی صلاحیت کے حامل ہیں‘‘۔ اب اضافہ یہ ہوا ہے کہ ’’مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک جاریہ (Sustainable movement) کو کسی بھی قسم کی عسکری طاقت سے دبایا نہیں جاسکتا‘‘۔ یہ بھی واضح ہے کہ مودی کا آرٹیکل 370اور 35اے کو ختم کرنے کا ڈیزائن اسرائیل کے یہودی بنیاد پرست وزیراعظم نیتن یاہو سے انسپریشن لے کر تیار ہوا ہے۔ یاد رہے کشمیریوں کی مسلسل بے قابو ہوتی تحریکِ حصولِ حقِ خودارادیت کو کچلنے کیلئے سب سے بڑا ہتھیار اسرائیل کی تیار کردہ (غیر قانونی) پیلٹ گن کا وحشیانہ استعمال رہا تھا، اور ہے۔ دسیوں دیگر واضح اشاروں کے ساتھ، یہ مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کے لئے کشمیری نوجوان اور کمسن بچوں اور عورتوں تک پر پیلٹ گن کے اس گھنائونے استعمال نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کیلئے اب بھارت، اسرائیل گٹھ جوڑ مکمل بے نقاب کر دیا ہے لیکن دونوں کا یہ حساب کتاب بالکل غلط ہے کہ مقبوضہ کشمیر ہڑپ ہو جائے گا، یا پھر آزاد کشمیر فلسطین بن جائے گا۔ تمام تر حقائق اور بنتی صورتحال واضح کر رہی ہے کہ مقبوضہ جموں کشمیر ہڑپ ہو سکے گا نہ ہی آزاد کشمیر غزہ یا مغربی پٹی بنے گا۔

بھارتی آئین کے آرٹیکل 370اور 35اے کی تنسیخ نے خطے میں جنگ و جدل کے تمام تر حالات پیدا کر دیئے ہیں۔ سفاریت اور ابلاغ کی جنگ تو شروع ہوگئی۔ یہ ایسی سرد جنگ ہے جس میں روایتی ہتھیاروں کی محدود جنگوں کے امکانات تو ہر وقت موجود رہیں گے، ایسی کوئی بھی امکانی جنگ (اللہ نہ کرے) دونوں ایٹمی طاقتوں کو وسیع تر باہمی تباہی کی طرف لے جا سکتی ہے۔ شملہ معاہدہ (1972) کے بعد سے بھارت کی مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے اولین ترجیح یہ رہی ہے کہ یہ کسی صورت عالمی حیثیت (Internationalize) اختیار نہ کرے لیکن بھارت دوطرفہ بات چیت سے بھی گریزاں رہا ہے۔ یہ تو مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی 1989سے تحریک جاریہ کا کمال ہے کہ نئی دہلی کے تمام تر گریز کے باوجود لاہور، مری اور آگرہ مذاکرات ہوئے اور اس کا امکان باقی رہا۔

اب تو بھارت نے دوطرفہ مذاکرات کے امکانات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے اور پاکستان کی امن کی تمام سفارتی کوششوں اور اقدامات کو جھٹکتے ہوئے پورے خطے پر خوفناک جنگ کا ماحول طاری کر دیا ہے۔ اس کی مقبوضہ کشمیر کو قبضے میں رکھنے کی صلاحیت اور پاکستان کی مسئلے کو بطور حل طلب عالمی مسئلہ کے قائم رکھنے کی اپنی کوششیں انتہا پر ہیں۔ اسلام آباد نے سرد جنگ کا پہلا معرکہ واضح طور جیت لیا ہے۔ آج مسئلہ کشمیر کے بطور تشویشناک عالمی مسئلہ بن جانے کے اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہوں گے کہ پاکستان نے اسے دوبارہ سلامتی کونسل میں لے جانے کی سفارتی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ برصغیر میں ایٹمی جنگ کے امکانات پیدا ہوتے ہی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھارت کو انتباہ کیا ہے کہ ’’کشمیر کی حیثیت بدلنے سے گریز کیا جائے‘‘۔ مزید واضح کیا کہ ’’کشمیر پر ہمارا موقف اقوام متحدہ کا چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادیں ہیں، پاکستان اور بھارت شملہ سمجھوتے میں مسئلہ کا یو این چارٹر کے مطابق حل نکالنے پر اتفاق کر چکے ہیں‘‘۔

اس سے قبل امریکی صدر ٹرمپ، خود مودی کی فرمائش پر وزیراعظم عمران خان کے سامنے مسئلہ کشمیر کے حل میں اپنی ثالثی پر آمادگی کا اظہار کر چکے ہیں، اگرچہ بھارت نے ’’مودی کی ٹرمپ سے فرمائش‘‘ کی تردید کی ہے لیکن امریکی صدر کے مشیر اور وہائٹ ہائوس کے ترجمان نئی دہلی کی تردید کو لغو قرار دے چکے ہیں، گویا صدر ٹرمپ قائم ہیں کہ مودی نے فرمائش کی تھی۔ سب سے بڑھ کر اقوام متحدہ کا جنیوا میں ہیومن رائٹس کمیشن گزشتہ سال اور امسال بھی مقبوضہ کشمیر پر اپنی رپورٹس میں بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تصدیق ہی نہیں کر چکا بلکہ اس کا اصرار ہے کہ وہاں فیکٹس مشن بھیجنے کی اجازت دی جائے۔ یہ پاکستان کی بڑی سفارتی فتح ہے۔ چین نے سیکورٹی کونسل میں مسئلہ آنے پر پاکستان کی حمایت کا واضح اعلان کر دیا ہے۔ اس سے قبل ترکی، ملائیشیا، برطانیہ، او آئی سی، قطر اورر امارات مسئلہ کشمیر کی عالمی حیثیت کو تسلیم کرکے اسے مذاکرات سے عالمی ادارہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دے چکے ہیں۔ یہ پاکستان کی زبردست سفارتی کامیابی ہے۔ دیکھنا ہے کہ بھارت کتنے کرفیو لگا کر اور کیسے کشمیر کو ہڑپ کرتا ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین