اسلام آباد (حنیف خالد) مخصوص پلان کے تحت سی پیک کے پروجیکٹوں پر کام سست روی کا شکار کر دیا گیا ہے 14اگست 2019کو سکھر ملتان چھ رویہ موٹروے جو پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے کو عام ٹریفک کیلئے کھولا جانا تھا جبکہ پانچ سو کلومیٹر کے لگ بھگ طویل سکھر ملتان موٹروے جو ہر لحاظ سے مکمل ہے اور اس کی تھرڈ پارٹی انسپکشن اور سرٹیفیکیشن بھی ہوچکی ہے جس سے وفاقی حکومت کو ٹال ٹیکس کی مد میں سالانہ اربوں روپے ملا کریں گے مگر کسی دبائو کے تحت اسے نہیں کھولا گیا جبکہ ھکلا (ترنول) ڈی آئی خان موٹروے جو ساڑھے تین سو کلومیٹر طویل ہے کی تعمیر کا باقی ماندہ کام نہ ہونے کے برابر ہے حالانکہ چائنا کی طرف سے فنڈز بھی دستیاب ہیں مگر کسی طاقت کے اشارے پر اس پر کام کی رفتار نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ دریں اثنا برہان حویلیاں ایبٹ آباد مانسہرہ موٹروے جس کا برہان تا حویلیاں سیکشن کا افتتاح سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی 31 مئی 2018 سے پہلے کر چکے ہیں اور حویلیاں سے مانسہرہ تک کی موٹروے زیادہ سے زیادہ چھ ماہ میں مکمل ہوجانا تھی اس پر کام کم وبیش رکا ہوا ہے۔ ادھر پشاور سے کراچی تک ڈبل جدید ترین ریلوے لائن بچھانے کے پروجیکٹ ایم ایل۔ ون اور ایم ایل۔ ٹو اور ایم ایل۔تھری (کراچی تا لاہور) لاہور تا راولپنڈی۔ راولپنڈی تا پشاور بھی ایک بہت بڑے ملک کے دبائو کی وجہ سے بند ہے اور اس کا زمینی کام تاحال شروع نہیں ہوا۔ وزارت ریلوے کی ایک شخصیت نے ایک سماجی تقریب میں اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ایک سابق صدر کو ہلکے پھلکے انداز میں عندیہ دیا کہ ایک بہت بڑا ملک چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کے اس اربوں ڈالر کے اس ایم ایل پروجیکٹ کو کم وبیش بند کرا رہا ہے۔ اس سے پاکستان کی اقتصادی ترقی کی تمام امیدیں خاک میں مل گئی ہیں۔ سی پیک پروجیکٹوں پر عملدرآمد کی رفتار بند یا بے حد سست ہونے کی وجہ سے پاکستان کی آدھی سے زیادہ انڈسٹری سنگین بحران کا شکار ہوگئی ہے اس کے نتیجے میں اسٹیل ملیں بند ہونے لگی ہیں اور سیمنٹ پلانٹ پیداواری گنجائش کے صرف 40 فیصد تک سیمنٹ بنا رہے ہیں سیمنٹ کی بوری ساڑھے چھ سو کی بجائے ساڑھے چار سو روپے میں بھی بکنا مشکل ہوگئی ہے۔ اسلام آباد کے پشاور موڑ سے نیو ایئرپورٹ تک کی میٹرو بس پلان کے مطابق پندرہ ماہ میں بھی نہیں چلائی جاسکی حالانکہ یہ سابقہ حکومت تین سے چھ ماہ میں مکمل کرنے والی تھی۔