• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک بھر میں جب لوگ سنتِ ابراہیمیؑ ادا کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے، تب کراچی کے شہری بے بسی سے سڑکوں پہ جمع بارش کے پانی میں اپنے پیاروں کی تیرتی لاشیں دیکھ رہے تھے، بارشوں کو قدرتی آفت قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اپنی مدد آپ کے تحت اپنے جان و مال کو بچانے کی تگ و دو کرنے والے شہریوں کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ شہر قائد کا کوئی والی وارث نہیں، عید الاضحی کے دنوں میں ہونے والی شدید بارشوں سے تقریباً 27 افراد جاں بحق ہوئے تاہم ان میں سے 18افراد کی موت کرنٹ لگنے کی وجہ سے ہوئی۔ اس سے پچھلے ہفتے ہونے والی بارشوں سے بھی تقریباً 20افراد موت کے منہ میں گئے اور ان میں سے بھی اکثریت کرنٹ لگنے کے باعث لقمہ اجل بنی۔ حادثہ ایک آدھ ہو تو اسے انسانی غفلت یا مشیتِ ایزدی قرار دے کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن جب درجنوں افراد بے حسی، نالائقی، بدانتظامی اور ہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھ جائیں تو ذمہ داران کا احتساب ناگزیر ہو جاتا ہے۔ کراچی کے شہری تڑپ تڑپ کر جان دیتے رہے لیکن صوبائی حکومت، ضلعی انتظامیہ، بلدیاتی ادارے اور کے الیکٹرک ایک دوسرے پر الزام تراشی کر تے رہے، اللہ بھلا کرے پاک فوج، رینجرز اور پولیس کے جوانوں کا جنہوں نے پانی اور بجلی کے ہاتھوں مرتے لوگوں کی جان بچانے میں کردار ادا کیا ورنہ صوبائی حکومت کے الیکٹرک کو انسانی جانوں کے ضیاع کا ذمہ دار گردانتے ہوئے وفاقی حکومت سے اس کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا گلہ کر رہی تھی تو کے الیکٹرک کے حکام بجلی کی تنصیبات کے گرد پانی کی نکاسی کا مناسب انتظام نہ کرنے پر کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کو ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے، اسی طرح کے ایم سی بھی بارش کے پانی کو نکالنے کی ذمہ داری لینے کی بجائے اسے ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن (ڈی ایم سی) کے کھاتے میں ڈال رہی تھی، یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ صوبائی حکومت سمیت ان تمام اداروں کی نا اہلی اور بدانتظامی کی سزا کراچی کے عوام کو اپنے پیاروں کی زندگیوں کی صورت میں ادا کرنا پڑی ہو، افسوسناک بلکہ اذیتناک امر یہ ہے کہ بجائے آگے بڑھ کر ذمہ داری قبول کرنے، عوام سے اپنی غفلت پر معافی مانگنے کے تمام متعلقہ ادارے دست و گریبان ہوکر لاچار عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرتے نظر آئے۔2015ء میں بھی کراچی میں بدترین ہیٹ ویوو سے تقریباً 11سو افراد جاں بحق ہو گئے تھے اور تب بھی بڑی وجہ کے الیکٹرک کی طرف سے بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ سامنے آئی تھی لیکن رات گئی بات گئی۔ میئر کراچی وسیم اختر نے درجنوں افراد کے کرنٹ لگنے سے جان بحق ہونے پر بڑی تگ و دو کے بعد کے الیکٹرک کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جبکہ صوبائی وزیر سعید غنی وفاقی حکومت پر برہم ہیں کہ وہ کے الیکٹرک کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کر رہی، ان کا غصہ بجا لیکن شاید دونوں بھول چکے ہیں کہ کے الیکٹرک کو کراچی کے شہریوں کی زندگیوں سے کھیلنے کا لائسنس دینے میں ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی برابر کی شریک ہیں۔ جب 2002ء میں کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کا خسارہ پونے اٹھارہ ارب روپے تک پہنچا تو تب پرویز مشرف کی حکومت نے اس کی نجکاری کا فیصلہ کیا، فروری 2005ء میں نجکاری کمیشن نے KESCکی نجکاری کیلئے بولیاں طلب کیں۔ نیلامی کے عمل میں ایک خلیجی ملک کی کمپنی نے سب سے زیادہ بولی دی تاہم وہ مقررہ وقت میں ادائیگی نہ کر سکی اور بالآخر اس نے دس ارب روپے کی زر ضمانت کے نقصان کے باوجود KESCکو لینے سے انکار کر دیا۔ از سرنو نیلامی کرنے کی بجائے اسی ملک کی ایک بروکر کمپنی سے مذاکرات کئے گئے،حکومت پاکستان کی تجویز پر کنسورشیم قائم کیا گیا اور یوں صرف پندرہ ارب چھیاسی کروڑ روپے میں اس کمپنی کو یہ ادارہ فروخت کر دیا گیا جس کا تجربہ بجلی کی بجائے تعمیرات کے شعبے میں تھا۔ سونے پہ سہاگہ حکومت نے کے ای ایس سی کی نجکاری کے بعد اسے چلانے کے لئے چودہ ارب روپے بھی فراہم کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لی، جس قومی ادارے کو کوڑیوں کے مول سولہ ارب روپے میں بیچا گیا، ایک محتاط اندازے کے مطابق تب اس کے اثاثوں کی مالیت دو سو ارب روپے سے زائد تھی۔ 2005سے مارچ 2008تک مذکورہ کمپنی صارفین کو بجلی کی فراہمی میں ناکام رہی اور اس نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے دبئی کی کمپنی ابراج کو فروخت کر دیا۔ ابراج نے کے اس کا انتظامی کنٹرول سنبھالنے کے بعد اس کا نام بدل کر کے الیکٹرک رکھ دیا اور معاہدے میں 2009میں اپنی مرضی کی ترامیم کرا لیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اسی ترمیمی معاہدے کی منظوری وفاقی کابینہ کے بجائے اقتصادی رابطہ کمیٹی سے حاصل کی گئی۔ اسی معاہدے میں لکھا گیا کہ اگر کسی بھی موقع پر حکومت پاکستان کے ای ای ایس سی کو اپنی تحویل میں لے گی تو اسے کے ای ایس سی کے ذمہ حالیہ اور مستقبل کے تمام واجبات ادا کرنا ہوں گے۔ یہی نہیں بلکہ اسے کمپنی کے ذمہ این ٹی ڈی سے تمام واجبات کی ادائیگی بھی کرنا ہوگی، یہی وہ ترمیمی معاہدہ ہے جس کی آڑ میں کے الیکٹرک کراچی کے صارفین کی زندگیوں کو جہنم بنائے ہوئے ہے۔ نیپرا رسمی کارروائی پوری کرنے کیلئے محض نوٹس لیتی ہے لیکن معمولی جرمانہ کرنے کے سوا وہ بھی کچھ کرنے کی مُجاز نہیں۔ رہی بات سندھ حکومت کی تو کئی دہائیوں سے اقتدار کے مزے لینے والے تو یہ بتانے کو بھی تیار نہیں کہ پی ایس ڈی پی کی مد میں وفاق سے اب تک لئے گئے سینکڑوں ارب میں سے اتنے بھی کراچی میں خرچ نہیں کئے جا سکتے تھے کہ اس کا کچرا ہی صاف کیا جاتا اور نکاسی آب کا نظام قائم کیا جا سکتا؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت فوری طور پر کے الیکٹرک کیساتھ کئے گئے معاہدے پر نظر ثانی کرے۔

تازہ ترین