بھارت نے کشمیر کو اپنے اندر زبردستی شامل کر لیا ہے۔ ایک بھی مسلمان مملکت خداداد سے اس کیخلاف آواز بلند نہیں ہوئی، 56ممالک اگر خاموش رہے تو سمجھیں ایسا کیوں ہوا؟ جب بوسنیا، فلسطین، شام، عراق، افغانستان کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہو رہا تھا تو در د صرف پاکستان کو کیوں ہوا اور پاکستان نے افغانستان کو روس سے آزاد کرانے میں 50،60لاکھ افغان مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دے کر ایک طرف روس سے دشمنی مول لی تو دوسری طرف پورے ملک کا امن تباہ کرکے اسلحہ اور منشیات مع مہاجرین خود کفیل ہوگیا۔ روس رسوا ہوکر چلا گیا کیا، اس نے معاف کیا؟ امریکہ سرخرو ہوگیا، کیا اس نے اس کا انعام دیا؟ دونوں کا جواب نہیں ہے تو پھر ہم آج تک بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کا کردار کیوں ادا کر رہے ہیں؟ بہت نیک کام ہم نے کر لئے، اب دوسروں کو کرنے دیں۔ کوئی ہم جیسا بے وقوف نہیں ہے جو دوسروں کی آگ میں کودے اور دراصل ان دونوں حالتوں میں ہمیں عقل آجانی چاہئے تھی مگر افسوس ہم ابھی تک اپنی نادانیاں ترک کرنے کے لئے تیار نہیں۔ خود افغانیوں کا کردار گزشتہ ورلڈ کپ میں سامنے آگیا، اس کی ٹیم جو سب سے ہاری گرائونڈ سے خاموشی سے سامان اٹھا کر اپنے ہوٹل کےکمروں میں دب کر منہ چھپا کر سو گئی مگر سب کو ہرانے والی پاکستانی ٹیم سے جب ہاری تو باہر نکل کر اس کے حامی پاکستانیوں پر پل پڑے، نہ لندن پولیس مدد کو آئی نہ آئی سی سی نے کوئی ایکشن لیا، گویا پاکستانی قصوروار تھے کہ انہوں نے افغانستان کی ٹیم کو کیوں ہرایا۔ آگے بڑھتے ہیں پاکستان کے میچ میں ہوائی جہاز سے بلوچستان کے حوالے سے متنازع بینر دکھائے گئے، پاکستان نے آئی سی سی سے رجوع کیا، لندن انتظامیہ سے شکایت کی، سب نے ہاں ہاں کی مگر کوئی ایکشن نہیں لیا مگر جب یہی عمل پاکستان نے کشمیر کے حق میں دہرایا تو آئی سی سی حرکت میں آ گئی اور کہا اگر لندن انتظامیہ نے اس پروپیگنڈے کو نہ روکا تو ہم آئندہ انگلینڈ میں کوئی میچ نہیں کرائیں گے، پھر برطانیہ نے آئی سی سی سے خط لکھ کر معافی مانگی اور یقین دہانی کرائی۔
اب آئیں کشمیر کو بھارت میں کیوں ضم کیا، دراصل امریکہ اور طالبان کے مذاکرات اب کامیابی کی طرف جا رہے تھے، اس کو خطرہ تھا اگر کشمیر بھارت سے الگ رہا تو اب جہادی کشمیر کی طرف آئیں گے کیونکہ افغانستان اب بھارت کے اثر سے نکل جائے گا اور طالبان ضرور اقتدار میں آکر جہادیوں اور کشمیر کے مظلوم عوام کا ساتھ دیں گے لہٰذا ابھی وقت ہے، اس کو بھارت کا حصہ بنا دو تاکہ کوئی لائن آف کنٹرول کراس نہ کر سکے کیونکہ اس صورت میں وہ بھارتی سرحد کہلائے گی۔ یاد رہے طالبان پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات پھر بحال کرنے والے ہیں اور بھارتی سفارت خانے اب بند ہو رہے ہیں۔ اب پاکستان کو چاہئے امریکہ پر دبائو ڈالے کہ بھارت کشمیر کو واپس اصلی صورت میں لوٹائے، فوج کو وہاں سے نکالے، کشمیریوں کی آزادیاں بحال کرے۔ اگر امریکہ ایسا نہ کرے تو پاکستان امریکہ کو طالبان مذاکرات سے لاتعلق ہوکر باہر نکلنے کی دھمکی دے، ساتھ ساتھ بیرونی قرضے معاف کرائے، جیسا عراق جنگ میں چین نے 8ارب ڈالر امریکہ سے وصول کیے تھے، ورنہ وہ اُس عراق جنگ کو ویٹو کر رہا تھا۔ آج پاکستان کے پاس طالبان امریکہ مذاکرات میں ویٹو جیسی پاور حاصل ہے۔ طالبان صرف پاکستان پر اعتماد کرکے مذاکرات کی ٹیبل پر آئے ہیں اور امریکہ اس مخمصہ سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔ اگر پاکستان نے مذاکرات سے نکلنے کی دھمکی دے اور دوسری طرف پاکستان کو چاہئے صرف یکطرفہ تجارت نہ بند کرے ساتھ ساتھ پاکستان سے لال نمک، جو ہندوئو ں کے مذہبی تہواروں کا حصہ ہے، کی برآمد فوراً بند کر دے، پورا بھارت مودی سرکار کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوگا۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ابھی تک لال نمک جو بھارت کی کمزوری ہے، کیوں بند نہیں کیاگیا؟ ایک طرف ہم مفت قیمت میں دے رہے ہیں جبکہ یہی نمک وہ پوری دنیا میں ہمالیہ نمک کے نام سے اربوں ڈالر میں ایکسپورٹ کر رہا ہے جبکہ یہ لال نمک صرف اور صرف پاکستان میں کھیوڑہ کی کان میں پیدا ہوتا ہے، یہ کان کلر کہار میں واقع ہے۔
کالم کے آخر میں وزیراعظم عمران خان کی توجہ ایف بی آر کی دوبارہ ہٹ دھرمی کی طرف دلانا چاہتا ہوں، ایک طرف وہ 50ہزار کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط 30ستمبر تک بڑھا کر اور بات چیت سے حل کرنے کی یقین دہانی کروانے تو دوسری طرف تاجروں کی ہڑتال ملتوی کروا کر پھر مکر جانے کی خبر پر اشتعال غم و غصہ دلوانے اور پی ٹی آئی کی حکومت کو بدنام کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ اس پر مزید تیل نہ چھڑکا جائے ورنہ پھر یہ معاملہ سنبھالے نہیں سنبھلے گا۔ ویسے بھی معیشت کا بھٹہ ہر طرف سے بیٹھ چکا ہے حتیٰ کہ اس سال قربانی بھی 30فیصد عوام کر سکے، 70فیصد مویشی بغیر فروخت واپس چلے گئے، کیا اس کو تبدیلی کہتے ہیں؟ ایسی نادانیاں اب قوم کیلئے ناقابلِ برداشت ہو چکی ہیں ایسی ایمانداری سے اب قوم باز آئی جس نے اندر سے سب کچھ لوٹ لیا۔ میری اطلاع کے مطابق 20،25فیصد اوسط درجہ کے والدین کے پاس اسکول کی فیس جمع کرانے کے پیسے نہیں ہیں، ان بچوں کا مستقبل اس مہنگائی نے کھا لیا ہے۔ خدارا! عقل سے کام لیں، اپنی معاشی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں۔