• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نازی دور کی جراحت کی اہم ترین کتاب آج بھی زیر استعمال

کراچی (نیوز ڈیسک) جب بھی کبھی ڈاکٹر سوزن مکینن کو آپریشن ختم کرنے کیلئے کسی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اکثر 20ویں صدی کے وسط کی ایناٹومی یا تشریح العضا کی ایک کتاب سے مدد لیتی ہیں۔ اس کتاب میں انسانی جسم کے تہہ در تہہ حصوں کے ہاتھ سے بنائے ہوئے بہت سے پیچیدہ خاکے ہیں اور اس کی مدد سے امریکا کے شہر سینٹ لوئس میں واقع واشنگٹن یونیورسٹی کی ڈاکٹر مکینن اپنا کام مکمل کرتی ہیں۔ جو کتاب وہ استعمال کرتی ہیں اس کا نام ’پرنکوف ٹوپوگرافک ایناٹومی آف مین‘ ہے اور اسے دنیا بھر میں اعضائے بدن کے خاکوں کی سب سے جامع کتاب سمجھا جاتا ہے۔ اس میں انسانی جسم کی ساخت پر مفصل کام کیا گیا ہے اور اس میں رنگ بھی دوسری کتابوں سے زیادہ واضح ہیں۔ جلد، پٹھے، نسیں، رگیں، دیگر اعضا اور ہڈیوں کو بڑی گرافک تفصیل کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ اس لیے یہ کمزور دل افراد کے دیکھنے والی چیز نہیں ہے۔ لیکن پرنکوف اٹلس کے نام سے پہچانی جانے والی یہ کتاب اب نہیں چھپتی اور اس کا سیکنڈ ہینڈ ایڈیشن (جس کی کئی جلدیں ہیں) انٹرنیٹ پر ہزاروں ڈالر میں فروخت ہوتی ہے۔ تاہم اس کے اتنا زیادہ مہنگا ہونے کے باوجود کچھ ڈاکٹر اسے اپنی کلینک، لائبریری یا گھر میں رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ اس میں نازیوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے سینکڑوں افراد کے جسموں پر کی جانے والی تحقیق کے نتائج درج ہیں۔ اس کے ہزاروں صفحات پر ان افراد کے کٹے اور چاک کیے گئے اجسام کے خاکے بھی موجود ہیں جنہیں سزائے موت دے کر ہلاک کیا گیا تھا۔ یہ خاکے انتہائی ماہر مصوروں اور آرٹسٹس نے تیار کیے تھے۔ مرگ انبوہ یعنی ہولوکاسٹ میں جرمن فوج کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچنے والی یہودی مذہبی شخصیت (جو شعبہ طب کے پروفیسر بھی ہیں) ربی جوزف پولاک کہتے ہیں کہ اگرچہ اخلاقی طور پر کتاب کا استعمال ٹھیک نہیں لگتا لیکن انسانیت کی بھلائی کیلئے اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب ایک ممتاز ڈاکٹر ایڈورڈ پرنکوف کے 20؍ سال کی محنت کا نتیجہ تھی۔ وہ ہٹلر کے پیروکار اور نازی تھے، اڈولف ہٹلر کی حمایت کی وجہ سے آسٹریا کے تعلیمی شعبے میں تیزی سے ترقی کرتے گئے۔ ان کے رفقاء انہیں ایک پکا نیشنل سوشلسٹ کہتے تھے جو 1938ء سے ہی ہر روز کام پر نازی یونیفارم پہن کرآتے تھے۔ جب انہیں یونیورسٹی آف ویانا میں میڈیکل اسکول کا ڈین بنایا گیا تو انہوں نے فیکلٹی سے تمام یہودیوں کو نکال دیا۔ نکالے جانے والوں میں تین نوبل انعام یافتہ افراد بھی موجود تھے۔ 1939ء میں نافذ کیے گئے جرمن قانون کے مطابق سزائے موت پانے والے ہر قیدی کے جسم کو تحقیق اور تعلیمی مقاصد کیلئے فوری طور پر جراحت (ایناٹومی) کے قریبی شعبے میں بھیجا گیا۔ دیباچوں میں کتاب کی ڈرائنگز کو بہت زیادہ متاثر کن اور آرٹ کے شاندار نمونے قرار دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر میکنن کہتی ہیں کہ درست اور مفصل ہونے کے لحاظ سے کوئی اور کتاب اس کتاب کا مقابلہ نہیں کر سکتی، پیچیدہ سرجریوں کے معاملے میں یہ کتاب بہت اہم اور سودمند ہے کیونکہ یہ بتاتی ہے کہ ہمارے جسم میں موجود کئی چھوٹی اعصابی رگوں میں سے ممکنہ طور پر کون سی تکلیف پہنچا رہی ہیں۔
تازہ ترین