• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقبوضہ کشمیر کے مقدمے کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے جانے کے اسلام آباد کے فیصلے کو مبصرین ان جہتوں میں سے ایک جہت کے طور پر دیکھ رہےہیں، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت متنازع قرار دئیے گئے علاقے کی خصوصی حیثیت نئی دہلی کی نریندر مودی سرکار کی طرف سے یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کے اقدام کے بعد جن سے عالمی برادری کو موثر طور پر آگاہ کیا جانا ناگزیر ہوچکا ہے۔ 1947ء میں برٹش انڈیا کی آزادی اور دو ملکوں میں تقسیم کے وقت پاکستان اور بھارت میں مختلف علاقوں کی شمولیت کے فارمولے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جب 90فیصد مسلم آبادی والی ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی فوجیں اتاری گئیں تو بعض علاقوں سے شروع ہونے والی مسلح عوامی جدوجہد بڑے علاقے کو آزاد کشمیر کا نام دیتی ہوئی سرینگر کے قریب تک پہنچ گئی۔ بھارتی فوج کو ہتھیار ڈالنے کی خفت سے بچانے کے لئے اس وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے سلامتی کونسل سے جنگ بندی کی درخواست کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ کشمیری عوام عالمی ادارے کے زیر اہتمام رائے شماری میں پاکستان یا بھارت میں سے جس ملک کے حق میں فیصلہ دیں گے اس سے ریاست کا الحاق کر دیا جائے گا۔ بعد میں نئی دہلی اس وعدے سے مکر گیا اور اضافی فوجوں کے ذریعے ظلم و ستم کا سلسلہ بڑھانا شروع کیا مگر کشمیریوں کی جدوجہد نہ صرف جاری رہی بلکہ آتش فشاں کا روپ دھار چکی ہے۔ یہ باتیں دہرانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ سرد جنگ کے زمانے میں کشمیر سے متعلق جو قراردادیں عالمی ادارے نے منظور کیں ان کے محرکین میں امریکہ اور یورپ سمیت مغربی بلاک کے ممالک شامل اور سرگرم تھے جبکہ ماسکو کی قیادت میں سوویت یونین نے سلامتی کونسل کی کئی قراردادوں کو ویٹو کیا تھا۔ بعد کی بدلتی ہوئی دنیا کی کیفیات اگرچہ حیرتناک ہیں مگر امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کے دورۂ واشنگٹن میں کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کی جو پیشکش کی اسے اگرچہ بھارت نے مسترد کر دیا مگر امریکی صدر کی پہل کاری سے خطے میں امن کے لئے نئی امیدیں پیدا ہوئیں۔ 20؍اگست 2019ء کو انہوں نے واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے تنازع کشمیر پر نہ صرف ثالثی کی پیشکش دہرائی بلکہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ رواں ہفتے کے اختتام پر کشمیر کا مسئلہ مودی کے سامنے اٹھائیں گے۔ قبل ازیں ٹویٹر پر اپنے بیان میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم عمران خان اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو علیحدہ علیحدہ ٹیلیفون کئے جن میں دیگر کے امور کے علاوہ بطور خاص کشمیر میں کشیدگی کم کرنے کے اقدامات پر تبادلہ خیال ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ خطے میں صورت حال کشیدہ ہے مگر یہ بات چیت مثبت رہی۔ امریکی صدر کے ان بیانات سے پاک بھارت تنائو کم کرنے کے حوالے سے ان کی سنجیدگی کا اظہار ہوا ہے۔ ان کی ثالثی کا نتیجہ پاکستان کے حق میں کس حد تک مثبت ہوگا، اس باب میں کئی تجزیہ کار زیادہ پُرامید محسوس نہیں ہوتے، تاہم ترجمان وائٹ ہائوس اور امریکی محکمہ خارجہ کے بیانات سے جنوبی ایشیا میں امن برقرار رکھنے کی خواہش کا اظہار ہوتا ہے۔ اگرچہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بھارت سے مقبوضہ کشمیر میں قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا مگر اس نے صدر ٹرمپ کی ثالثی پیشکش کو یہ زاویہ بھی دیا کہ امریکی صدر کی مداخلت کا مقصد تعمیراتی مذاکرات شروع کرنے کے طریقوں کی تلاش میں پاکستان اور بھارت کی مدد کرنا ہے۔ ایسے وقت کہ کشمیر کے مسئلے پر سلامتی کونسل کے اجلاس کی توقعات ظاہر کی جا رہی ہیں اور جنرل اسمبلی اجلاس بھی ستمبر میں ہو رہا ہے، پاکستان کا بین الاقوامی عدالت انصاف اور عالمی انسانی حقوق کمیشن سمیت ہر فورم پر جانے کا فیصلہ کشمیریوں کے انسانی حقوق کی طرف عالمی برادری، خاص طور پر مغربی ملکوں کو متوجہ کرنے میں معاون ہوگا۔ اس باب میں دنیا کے ہر ملک میں حکومتوں اور عام لوگوں کو کشمیریوں کے انسانی حقوق کی پامالی رکوانے کی ضرورت سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔

تازہ ترین