اسلام آباد ( طارق بٹ نمائندہ خصوصی )سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ کا کاروباری افراد اور سول بیوروکریسی کے حوالے سے نیب قوانین کا از سر نو جائزہ لینے کا فیصلہ امتیازی اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ یہ فیصلہ سیاسی افراد کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کی کوشش ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ سول بیوروکریسی کے خلاف اس وقت تک تحقیقات، ریفرنس اور گرفتاری عمل میں نہیں لائی جائے گی، جب تک انکے ساتھیوں پر مشتمل سپروائزری کمیٹی اس کی منظوری نہ دیدے۔ ملک میں پہلے ہی مختلف احتساب قوانین رائج ہیں، ان احتساب قوانین میں عدلیہ، ملٹری اور سول بیوروکریسی کا احتساب ان کے ساتھی کرتے ہیں ۔ صرف سیاسی افراد کو ہی خصوصی قانون اور خصوصی عدالتوں کا سامنا ہے اگر باقی اداروں کے افراد کا احتساب انکے ساتھی کرتے ہیں تو پارلیمنٹ کے ارکان کا احتساب بھی پارلیمانی کمیٹی برائے احتساب کرے ۔ اس کا حل یہ ہے کہ وفاقی کمیشن برائے احتساب قائم کیا جائے جہاں سب کیلئے ایک قانون ہو ۔ وفاقی کمیشن برائے احتساب معاشرے کے ہر طبقے کا بلا تفریق احتساب کرے ۔ حقیقی احتساب تب ہی ممکن ہے جب سب پر ایک ہی احتساب قانون لاگو ہوگا طارق بٹ نے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما ایاز صادق نے اس حوالے سے رابطہ کیا انہوں نے کہا کہ ہم پہلے پیکیج دیکھیں گے پھر فیصلہ کریں گے ۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب قانون کے معاملے پر اپوزیشن جماعتوں کی رائے ڈھکی چھپی نہیں اور حزب اختلاف اس کی ڈریکولائی شقوں کا مکمل خاتمہ چاہتی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں ماضی میں حکومت اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کے درمیان چند اجلاس ہوئے ہیں مگر حکومتی نمائندوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور اچانک اس معاملے علیحدہ ہو گئی ، ا نہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر حکومت نیب آرڈننس میں اچھی تجاویز پیش کرے تو حزب اختلاف ان کے ساتھ ہوگی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت اکیلی مجوزہ تبدیلی کی ترمیم نہیں کرا سکتی ، حکومت کو لازمی حزب اختلاف سے بات کرنی ہوگی مگر اب تک حکومتی نمائندو ں نے اس معاملے یا کسی بھی قومی ایشو پر اپوزیشن سے کوئی رابطہ نہیں کیا ۔ وفاقی وزیر برائے قانون کی مجوزہ ترمیم کے معاملے پر اپنا نکتہ نظر پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اس کی حمایت کرے گی کہ نیب ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کا اختیار احتساب عدالتوں کو دیا جائے ۔ اس وقت نیب احتساب آرڈیننس کے تحت احتساب عدالتوں کو یہ اختیار نہیں ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے گزشتہ برس نومبر کے وسط میں اپنے ایک فیصلے میں یہ تجویز دی تھی اور اگر نیب قانون میں مجوزہ ترمیم منظور کرلی جاتی ہے تو نیب کے ملزم کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ ضمانت کیلئے متعلقہ عدالت سے رجوع کرے ۔ ظاہر ہے ملزم اس حوالے سے سپریم کورٹ سے بھی رابطہ کرسکے گا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ نیب کے اس آرڈیننس کے باعث اعلیٰ عدالتوں کو زیادہ دباو کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ وفاقی وزیر برائے قانون کا کہنا تھا کہ نیب میگا کرپشن اسکینڈلز کیلئے بنایا گیا تھا اور اس کی تمام تر توجہ اسی پر مرکوز رہنا چاہئے۔ سابق اسپیکر نے قومی احتساب آرڈیننس کےقانون (رضاکارانہ واپسی،وی آر )میں تجدید کی بھی تائید کی ۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اس معاملے کو دیکھنا ہوگا کہ ملزم رقم کی رضاکارانہ واپسی کس طرح سے کرتا ہے اور یہ سہولت حاصل کرنے والے ملزم کو کسی بھی سرکاری عہدے پر دوبارہ کام کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔