• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ڈھاکا میں 25مارچ کی رات کو فوجی کارروائی کے بعد مجھے حکم ملا کہ ریڈیو کو دوبارہ چلایا جائے، میں نے ریڈیو کے عملے سے کہا کہ وہ سازوں پر دُھنیں نشر کرتے رہیں تاکہ اندازہ ہو کہ ریڈیو اسٹیشن چل رہا ہے اور جوں جوں مارشل لا کی ہدایات آتی جائیں گی، موسیقی بند کرکے یہ نشر کی جائیں گی اور پھر دُھنوں کا سلسلہ شروع کیا جائے گا لیکن جب میں وہاں سے چلا گیا تو ’’ماتمی‘‘ دُھنیں بجانا شروع کر دیں، میں نے واپس آکر انہیں ٹوکا، اور کہا کہ آئندہ صرف حمد، نعت اور منقبت وغیرہ نشر کی جائیں، جس پر وہ بار بار یہ نغمہ نشر کرنے لگے۔

اے مولا علی، اے شیرِ خدا، میری کشتی پار لگا دینا

کشتی عوامی لیگ کا انتخابی نشان تھا (اور اس طرح بنگالی عملہ ریڈیو کو فوجی حکام کی بجائے اپنا پیغام پہنچانے کیلئے بروئے کار لانے لگا) جب میں نے ٹیلی وژن کو ہدایت کی کہ تحریک پاکستان پر مبنی ڈرامے نشر کئے جائیں تو ٹی وی عملے نے پہلا ڈرامہ محمد علی جوہر پر ٹیلی کاسٹ کیا، جس میں کردار بار بار اس طرح کے مکالمے بولتے تھے۔ آزادی کے جذبے کو دبایا نہیں جا سکتا۔ آزادی قربانیاں مانگتی ہے۔ آزادی کیلئے مائوں کو اپنے بچے اور بہنوں کو اپنے بھائی پیش کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہئے‘‘

(بریگیڈیئر صدیق سالک کی کتاب ’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘ سے ایک اقتباس)

بریگیڈیئر صاحب اُس وقت مشرقی پاکستان میں پاک فوج کےترجمان تھے۔ وہ ان سطور سے دراصل یہ یاد دلاتے ہیں کہ بنگالی کس فنکارانہ چابکدستی سے ہر موقع کو اپنے لئے کارآمد بناتے تھے۔ لاریب! ریڈیو اور ٹی وی جیسے ذرائع نہ ہونے کے باوجود ہر دم جواں کشمیری، بنگالیوں سے کئی گنا زیادہ اپنی بات نہ صرف ہم وطنوں بلکہ اقوام عالم تک پہنچانے میں سرخرو ہو چکےہیں۔ لیکن کیا بس یہی کچھ آزادی کیلئے کافی ہوگا؟ صدیق سالک صاحب رقمطراز ہیں ’’14دسمبر 1971، حکومتِ مشرقی پاکستان کا آخری دن تھا، بنگلہ دیش کی پیدائش ایک ایسے بچے کی ولادت تھی جسے ماں کا پیٹ چاک کرکے نکالا گیا ہو، یہ آپریشن بھارت نے کیا‘‘ (صفحہ 206) اس سے یہاں یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ اگر بنگالی، شیخ مجیب کے ہمنوا تھے یا اپنے تئیں قربانیاں دے رہے تھے تو بھی یہ بھارتی مداخلت ہی تھی جس سے اُن کی مراد بر آئی۔ تو کیا ہمارے کشمیری بھائی اس طرح کی امداد کے بغیر بھارتی سامراج سے یہ جنگ جیت لیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جو ان دنوں شدت سے پوچھا جا رہا ہے۔ پاکستانی مخمصے سے دوچار ہیں۔ بین الاقوامی حمایت، امداد و کردار کے سلسلے میں ابہام پایا جاتا ہے۔ ہماری تاریخ اس طرح کے ابہام پذیر واقعات کی گواہی دیتی ہے۔ ہم اور آپ آج تک اُس امریکی دغا کا ذکر کرتے ہیں جو اُس نے امدادی بحری بیڑا نہ بھیج کر ہمیں بھیج منجدھار میں لا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن تاریخ کا سچ یہ ہے کہ ایسا کوئی وعدہ سرے سے کیا گیا ہی نہیں تھا۔ صدیق سالک صاحب پردہ اُٹھاتے ہیں ’’جنرل نیازی کو ہمت دلانے کیلئے راولپنڈی نے یہ انوکھی ترکیب نکالی کہ ڈھاکا کو اطلاع دی کہ بین الاقوامی سطح پر وسیع امداد حاصل کی جا رہی ہے، ہمارے زرد دوست (چین) شمال سے اور سفید دوست (امریکہ) جنوب سے مداخلت کرنے والے ہیں، اس وقت بحری بیڑا بحرِہند کے مشرقی کنارے پر تھا، تاہم (امداد نہ پہنچے پر) جب ڈھاکا میں مقیم چینی و امریکی نمائندوں سے رابطہ کیا گیا تو اُنہوں نے ایسی کسی بھی کارروائی سے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا‘‘ (صفحہ200، (201

تحریک انصاف حکومت کی کوششیں اپنی جگہ، لیکن بڑی طاقتوں کی بے اعتنائی کے سبب اب تک کے اقدامات قومی تسکین کا باعث نہیں بن پا رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قوم جذباتی انداز میں سوچنے پر مجبور نظر آتی ہے۔ اب عام محفلوں تک میں یہ کہا جا رہا ہے کہ مشاورتی اجلاس کا ڈھنڈورا یہ کہہ کر پیٹا گیا کہ یہ سلامتی کونسل کا باقاعدہ اجلاس ہے، قوم کو بتایا گیا کہ اجلاس ہماری درخواست پر بلایا گیا، حالانکہ یہ چین کا مرہونِ منت تھا، نہ تو اس مشاورتی اجلاس نے کوئی اعلامیہ جاری کرنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی سلامتی کونسل کے باقاعدہ اجلاس کیلئے کسی تاریخ کا اعلان کیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر بڑی طاقتوں کی تشویش بجا مگر مظلوم کشمیریوں کو ظلم سے نجات دلانے کیلئے عملی اقدامات پر بات تک نہیں ہوئی۔ اور تو اور ہمارے برادر اسلامی ممالک کا کردار بھی حوصلہ افزا نہیں۔ اب ٹرمپ کی ثالثی کی باتیں عام ہیں، کیا عوام یہ پوچھنےکا حق نہیں رکھتے کہ امریکی بحری بیڑے کے ڈرامے سے لیکر ثالثی کے اعلان تک قوم کو ماسوائے شکست وریخت اور مایوسی کے ملا کیا ہے؟ قابلِ غور امر یہ ہے کہ جب نام نہاد مہذب دنیا مظلوم کی عملی مدد سے پہلو تہی کرنے لگتی ہے تو پھر زندہ قومیں کیا اقدامات کرتی ہیں۔ حضرت اقبال نے تو کہا تھا!

وحدت کی حفاظت نہیں بے قوتِ بازو

آتی نہیں کچھ کام یہاں عقلِ خداداد

تازہ ترین