• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

مہمان سہیلیاں: ملائکہ ، اُمیمہ

حجاب/عبایا: ایکسپریشن چِک اٹائیر/ قواریر فیشن/ میرمَن

آرایش: دیوا بیوٹی سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

عزّت و غیرت، شرم و حیا اُمّتِ مسلمہ کا شعار اور عِصمت و عفّت کی حفاظت، حجاب و پردہ مسلمان خواتین کا فخر و امتیاز ہے۔ دینِ اسلام میں حیاداری کا حُکم صرف عورت ہی کے لیے نہیں، مرد کے لیے بھی ہے۔ مومن عورتوں کے لیے اگر خصوصی طور پر سورۂ نور اور سورۃالاحزاب میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ ’’اے نبیؐ ! مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ اپنی عِصمتوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت دکھاتی نہ پھریں، بجز اُس کے کہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اوڑھنیوں کےآنچل ڈالے رہیں۔‘‘ (سورۂ نور) اور ’’اے محمّدؐ! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنےا وپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے، تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں۔‘‘ (سورۃ الاحزاب)تو اِسی طرح سورۂ نور ہی میں مومن مَردوں کے لیے بھی حُکم ہے کہ ’’مسلمان مَردوں سے کہو، اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی اُن کے لیے پاکیزگی ہے۔ لوگ جو کچھ کریں، اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے۔‘‘ پھر نبی کریم ﷺ کے بھی شرم و حیا سے متعلق متعدد ارشادات میں مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہیں۔ فرمایا، ’’حیا ایمان کی ایک شاخ (یا ایمان کا پھل)ہے۔ اور ایمان جنّت میں لے جائے گا، جب کہ بے حیائی و بے شرمی بد کاری میں سے ہے اور بَدی آگ(دوزخ)میں لے جانے والی ہے۔‘‘(مسند احمد و ترمذی) پھر فرمایا، بےہودگی جس چیز میں بھی ہوگی، اُسے عیب دار اور ناقص کر دے گی، جب کہ حیا جس شئے میں بھی ہوگی، اُسے خُوب صُورت اور کامل بنا دے گی۔‘‘(ترمذی) اِسی طرح کچھ اور بھی فرامینِ رسول اکرمؐ ہیں ’’حیا جزوِ ایمان ہے۔‘‘ ، ’’مومن بے حیا نہیں ہوتا۔‘‘، ’’حیا کی صفت صرف بہتری لاتی ہے۔‘‘، ’’شرم و حیا اور بُری باتوں سے خاموش رہنا ایمان کی شاخیں اور بے ہودہ، فضول گفتگو نفاق کی شاخیں ہیں۔‘‘(مشکوٰۃ المصابیح)اوریہ کہ ’’جب تم حیا نہ کرو، تو جو جی چاہے، کرو۔‘‘(صحیح مسلم)۔

مطلب یہ کہ ’’شرم و حیا‘‘ دینِ اسلام کے بنیادی ستون میں سے ایک ہے، تو پھر ایک ایسے ستون کے لیے، جس پر مذہب کی عمارت قائم و دائم ہے، ایک یوم اور وہ بھی خصوصاً خواتین کے لیے ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کےعنوان سےموسوم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اِس ضمن میں ایک بات تو یہ گرہ سے باندھ لیں کہ عموماً دشمن/ اغیار کا پہلا بڑا حملہ کسی بنیادی ستون، مضبوط قلعےمیں شگاف ہی کی صُورت ہوتا ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا تھا کہ ’’جب تم حیا نہ کرو، تو جو جی چاہے کرو‘‘ تو ابلیس کی طرح، دشمن کی تو پہلی کوشش ہی یہ رہی کہ مومن سےکسی طرح اُس کا اہم ترین وصف ’’لاج و حیا‘‘ چھین لے۔ حضرت آدمؑ و حوّا ؑ کے دِلوں میں شیطان نے وسوسہ ڈالا، اُنہیں بہکایا تاکہ اُن کی شرم گاہیں، جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں، بے پردہ ہوجائیں، تو ابتدائے آفرینش سے اسلام دشمنوں کا بھی یہی طریقہ، وتیرہ، عزم ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کو اُن کے خالص دینی و مذہبی اوصاف سے بے بہرہ کر دیا جائے۔ محسنِ انسانیتؐ کنواری، پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیادار تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ’’رسول کریمؐ نہ فحش کلامی کرتے تھے، نہ بے ہودہ گوئی اور نہ ہی کبھی بازاروں میں شور کیا کرتے۔ برائی کا بدلہ کبھی برائی سے نہ دیتے بلکہ معاف فرما دیا کرتے تھے۔‘‘ آپؐ کا دامنِ عفّت و عِصمت کسی بھی طرح کے قبیح قول و فعل سے تا حیات پاک و صاف ہی رہا۔ اور اصولاً نبیؐ کے ہر اُمّتی کو اُن ہی کے نقشِ پا کا راہی ہونا چاہیے تھا، مگر دشمنانِ دین نے نقب لگائی اور مومن مرد و عورت کی نگاہ ہی سے نہیں، دل سے بھی حیا، لاج کا نقاب نوچنے کی ہر سعی کر ڈالی۔ کبھی مادر پدر آزاد، مغربی تہذیب و ثقافت کی یلغار سے ایمان میں ڈگمگاہٹ کے ڈول ڈالے، تو کبھی نام نہاد پابندیوں، قوانین کی آڑ میں دینی اقدارو روایات کو سبوتاژ کرنے کی سازش کی۔ جیسا کہ 2004ء میں، فرانس میں حجاب پر پابندی کا قانون منظور ہوا اور یکم جولائی 2009ء میں، مصری نژاد جرمن مسلمان خاتون کو مغرب کے ننگ دھڑنگ ماحول میں اپنی عِصمت و عزت کی حفاظت کےلیے، محض حجاب اوڑھنے کی پاداش میں بھری عدالت، اُس کے شوہر اور ڈھائی سالہ بیٹے کے سامنے چاقو کے 18 شدید وار کرکے شہید کر دیا گیا۔

تو اسلام دشمنوں کے ایسے ہی اقدامات کے جواب میں، عالمی اسلامی تحریکوں کے ایک اجتماع میں اُمّتِ مسلمہ کے جیّد عالمِ دین، علّامہ یوسف القرضاوی کی قیادت میں ہر سال پوری دنیا میں 4 ستمبر کا دن ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کے طور پر منانے کا فیصلہ ہوا، جس پر ’’شہیدۃ الحجاب‘‘ مروہ الشربینی کی شہادت کے بعد خاص طور پر زیادہ شدّومد اور بھرپور جوش و خروش کے ساتھ عمل درآمد کا آغاز ہوا اور اب اس کی شدّت میں روز افزوں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ’’حجاب‘‘ گز، ڈیڑھ گز کپڑے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا پوری دنیا کی مسلمان عورتوں کی شناخت، تشخّص، پہچان، انفرادیت، فخر و امتیاز، نشانی، سمبل بن چکا ہے۔ کسی کا کہنا ہے کہ ؎ مَیں حُکمِ رب پہ نازاں ہوں،مجھے مسرور رہنے دو … رَدا ہے یہ تحفّظ کی، مجھے مستور رہنے دو … مثالِ سیپ میں موتی مجھے ربّ قیمتی سمجھے … مجھے اپنی قدر افزائی پہ مغرور رہنے دو … زمانے کی نظر گہنا نہ دے پاکیزگی میری… حیا کے لعل و گہر سے مجھے پُرنور رہنے دو… نہیں محتاج میری ذات مصنوعی سہاروں کی…حیاکی پاس داری سے مثالِ حور رہنے دو… مِرے سر پر جو چادر ہے، مِرے ایماں کا سایہ…اِسی سائے کی ٹھنڈک سے ہر اِک غم دُور رہنے دو۔ تو کسی کا خیال ہے ؎ حُسن کو چار چاند لگتے ہیں، جب پڑا ہو نقاب چہرے پر… دیکھ، رنگ حیا چمکتا ہے، صُورتِ ماہتاب چہرے پر۔ تو کسی کی نگاہ میں ؎ سر پر رکھا ہوا پیارا آنچل…رحمتِ رب کا اشارہ آنچل… رشکِ مہتاب و ستارہ آنچل… موج ہستی میں کنارا آنچل…میری پہچان، علامت میری… میری تہذیب، روایت میری…میری توقیر، شجاعت میری…میرا ایمان، عبادت میری… میرا آنچل ہے حیا کا پرچم… رسمِ تسلیم و رضا کا پرچم…مہرو الفت کا، وفا کا پر چم…صنفِ نازک کی بقا کا پرچم۔

تو یہ ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ دینِ اسلام کی روشنی میں صرف صنفِ نازک سے منسوب ’’حجاب ‘‘ ہی کا عالمی دن نہیں، بلکہ کُل اُمّتِ مسلمہ (ہر مردو زن) کو یہ دن ’’یومِ حیا‘‘ کے طور پر منانا چاہیے۔ تاکہ اغیار نے ہماری بنیادیں ہلانے اور رفتہ رفتہ کھوکھلی کرنے کی جو منصوبہ بندی کی ہے، اُس کے سامنے بندھ باندھنے کی کوئی سعی ہماری طرف سے بھی تو ہو اور خاص طور پر امسال تو یہ دن کشمیر کی حیادار، با کردار، عفّت مآب ماؤں بہنوں، بیٹیوں اور جرّی، بہادر، غیّور باپوں، بھائیوں اور بیٹوں کے نام ہونا چاہیے کہ جنہوں نے دین و حیا کا پرچم ساتھ ساتھ اُٹھا رکھا ہے۔ جو کٹ مرنے کو تو تیار ہیں، مگر جُھکنے، گِرنے، ڈرنےاور بِکنے پر ہرگز آمادہ نہیں۔ ربّ ِ کریم کُل اُمّتِ مسلمہ کو باحیا و باکر دار ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

بہرحال، ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کے موقعے پر ہماری طرف سے اظہارِ یک جہتی کے طور پر یہ ایک چھوٹی سی بزم بطور نذرانہ قبول کیجیے کہ ؎ حُسن بھی حُسن ہے، ملبوسِ حیا ہے جب تک… پُرکشش اور نظر آئے حجابات مجھے۔ دُعا ہے کہ حجاب و حیا، شرم و لاج کی خُوشبو کا یہ سفر رہتی دنیا تک جاری و ساری رہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین