• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے معلوم ہے جومیں کہہ رہا ہوں یہ سب کوپتہ ہے اوریہ کوئی ایسی بات نہیں کہ جسے میں خود بھی کسی کام کی بات کے زمرے میں لاسکوں لیکن بس ضمیرپرایک بوجھ ہے کہ اس بات اوراس کے مضافات میں پائی جانے والی باتوں کو یکجا کرکے ان بچوں اوربیوائوں کا کیس پیش کرسکوں جن کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ہم صحافی بھی روزانہ بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اوردہشت گردی کے دیگرواقعات میں مرنے اورزخمی ہونے والوں کی گنتی ہی کرتے ہیں لیکن ایسا کبھی کبھی ہی کرتے ہیں کہ جومرگئے سومرگئے لیکن جو ان کے پیچھے بدقسمت زندہ بچ گئے ان کی کہانی بھی سنائیں۔ ایسے بچے اورخواتین گلیوں اورمحلوں میں بکھری تعداد میں توملتے ہیں لیکن ان کی کوئی مجموعی شکل نہ ہونے کی بدولت یہ ٹکڑوں اورحصوں میں تقسیم پائے جاتے ہیں۔ کیا کسی کو پتہ ہے کہ عام حالات میں مارے جانے والوں کے ساتھ ساتھ جولوگ دہشت گردی کے نتیجے میں اپنی جانوں سے گئے انہوں نے اپنے پیچھے اس وقت ہزاروں بیوائوں سمیت پینتالیس لاکھ سے زیادہ ایسے یتیم بچے چھوڑے ہیں جن کی کفالت کرنے والے یا توبہت کم یا سرے سے ہیں ہی نہیں۔ ہم تومرنے والوں کے سرگنتے ہیں لیکن ان کے پیچھے رہ جانے والوں کونہیں گنتے کہ پہلے توکسی محلے یا علاقے کی سطح پردہشت گردی کا شہید ملتا تھا اب توشاید ہی کوئی محلہ ایسا بچا ہوجہاں پران لوگوں میں سے کوئی پایا نہ جاتا ہوبلکہ ایسے بھی علاقے ہیں جہاں پران بیوائوں اوریتیموں کے پورے پورے محلے آباد ہوگئے ہیں۔ چارسدہ میںسابق وزیرداخلہ آفتاب احمد خان شیرپائوپرہونے والے تین بڑے حملوں کے نتیجے میں ان کے حلقے میں بیوائوں اوریتیموں کے محلے آباد ہوئے، پشاورکے کوہاٹی گیٹ میں چرچ دھماکے میں مرنے والوں کے پورے پورے محلے بنے اورجب پشاورمیں سیکرٹریٹ کی بس بھی دہشت گردی کا نشانہ بنی تواس میں بھی مردان، چارسدہ، درگئی، ملاکنڈ اورگردونواح میں یتیموں اوربیوائوں کی ایک نئی لاٹ بنی۔ یہ توصرف تین قسم کے واقعات کے حوالے ہیں اوران میںوہ لوگ شامل نہیں جومختلف واقعات میں معذورہوکرمعاشرے پربوجھ بنے ان کی کہانی ان سے بالکل الگ ہے۔ دہشت گردی کے ان واقعات کے اثرات سے الگ اگرکوئی اس بات میں دلچسپی رکھتا ہو کہ گزشتہ صرف ایک دہائی میں خیبرپختونخوا میں کتنے لوگ شہید ہوئے توان کی معلومات کے لئے صرف اتنا بتانا کافی ہوگا کہ سال 2007 میں شروع ہونے والے اس سلسلے کے دوران سال 2015 تک ہزاروں لوگ شہید وزخمی ہوئےجبکہ 2016 میں بھی ابھی گنتی کا عمل جاری ہے۔
اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک سوال کرنے کو جی چاہتا ہے تاہم نتیجے کے خوف کی وجہ سے یہ سوال نہیں کرپاتا کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کادن ہم تیئس مارچ کو مناتے ہیں یا اس کی شکل اورڈائنامکس بدل چکے ہیں کیا یہ وہی نارمل پاکستان ہے جس کا خواب دیکھا گیا تھا ، جس طرح دنیا اس کے گرد گھیراڈال کردوستوں اوردشمنوں کی شکل میں موجود ہے شاید اس کا بھی جائزہ لے کرآنکھیں بند کرنے کی بجائے کچھ فیصلے کرنے ہونگے۔ اگرہم اس بات کا جائزہ لینے کیلئے تیارہیں کہ ہاں ہمیں دنیا کے بدلتے حالات میں اب اس ملک اوراس کے مقاصدکا ایک بھرپورجائزہ لینا ہوگا توپھردیکھ لیں کہ اب کے بعد اگرآپ کو چین کی مدد سے معاشی ترقی کرنی ہے تب بھی اوراگرافغانستان سے متعلق معاملات میں جنگ لڑنی ہے تب بھی، اگربلوچستان کو دشمنوں کی گرفت سے بچانا ہو تب بھی اب ایسا کرنا ہوگا کہ اب یہاں ہرسال صرف 23 مارچ اور14 اگست منانے کی بجائے دہشت گردی سے متاثرہونے والے بعض ممالک کی طرح ایک دن ایسا بھی منانا ہوگا جس میں دہشت گردی سے متاثرہ ان عورتوں اوربچوں کو یہ احساس دلایا جاسکے کہ ان کی بابت بھی سوچا جارہا ہے وہ اس قوم کے خاص لوگ ہیں جن کی عزت خاص ہے اورعلاج کے لئے بیرون ملک جانے والے سابق صدرپرویزمشرف نے جو جنگ قومی مفاد میں شروع کی تھی اس جنگ کے متاثرین کو قوم کے محسنوں کی حیثیت دے کر انہیں عام شہریوں سے ایک انچ اوپرکا درجہ دینا ہوگا، ایسا کرتے ہوئے ان بچوں اورعورتوں کو کچھ قومی نوعیت کی تقاریب میں مہمانان خصوصی کے طورپرٹریٹ کرنا ہوگاورنہ ایک طرف توغربت اوردوسری جانب معاشرے کی بے رخی ان بچوں اورعورتوں سے روا رکھے ہوئے رویوں کا ایسا اثرڈالے گی کہ پھراس معاشرے میں آپ کوکچھ کم اچھے سمجھے جانے والے کاموں میں یہ متاثرین ملیں گے۔ کیا ہم میں سے کسی کو یاد ہے کہ کسی حکومت نے ان بچوں اوربیوائوں کو پیکج کے نام پرچند لاکھ روپے دینے کے علاوہ ان کی کفالت اورمعاملات کواپنے پروگرام کا حصہ بنایا ہویا کسی جماعت نے اپنے سیاسی منشورمیں انہیں بھی شامل کیا ہواتنا توسب جانتے ہیں کہ ان بچوں کے لئے کام کرنے والے بعض اہل خیراورغیرسرکاری تنظیموں کے بنائے ہوئے ادارے توبنے ہیں لیکن کیا وہ ان سب بچوں کی ضرورتوںکا احاطہ کرنے کیلئے کافی ہیں ؟۔ پاکستان جسے دنیابھرمیں سب سے زیادہ خیرات دینے والے ملک کی حیثیت کا فخر حاصل ہے وہاں ان بچوں اورعورتوں کیلئے کوئی منظم پروگرام بھی ہے اوراگرجواب نفی میں ہے تواس سے پہلے کہ محرومیوں کے سائے تلے پلنے والے یہ بچے اورعورتیں اس معاشرے کے بڑے مسائل میں سے ایک بن جائیں ان کے لئے کچھ کرنا ہوگا۔ لیکن ان کے لئے کچھ بھی کرتے ہوئے اس بات کو ضروردیکھنا ہوگا کہ مالی امداد سے زیادہ ان بچوں اورعورتوں کے نفسیاتی مسائل کے حل کے لئے ان کے سرپرہاتھ رکھنا ضروری ہے ان بچوں کو زندگی کا راستہ دکھانا ہوگا ان عورتوں کو گھروں میں برتن مانجھنے کے علاوہ بھی باعزت روزگارکے قابل بنانا ہوگا ورنہ صرف خیرات پرتوفقیرپلتے ہیں جوہمیشہ آسرے ہی تلاش کرتے ہیں اورخدانخواستہ انہیں آسرے تلاش کرنے کے لئے مجبور چھوڑا گیا اور انہیں کارآمد شہری نہ بنایا گیا تو یہ ہمارے کام آنے کی بجائے ’’دشمن‘‘ کے ہتھے بھی چڑھ سکتے ہیں۔
تازہ ترین