• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوم عاشورہ الحمدللہ بخیریت گزر گیا۔ اس بار امن و امان کی صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے پنجاب سمیت پورے ملک میں فول پرو ف انتظامات کیے گئے تھے۔ قابل تحسین امریہ ہے کہ ملک بھر میں کسی بھی قسم کا کوئی نا خوشگوار واقعہ نہیں ہوا۔ شہدائے کربلا کی قربانی ہمیں کفر کے سامنے کلمہ حق کہنے اور سچ پر ڈٹ جانے کا درس دیتی ہے۔ حضرت امام حسین ؓ اور ان کے ساتھیوں نے جس طرح یزید کا مقابلہ کیا اور لازوال قربانی دی اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہم بھی اپنی زندگیوں کو شہدائے کربلا کی پیروی کرتے ہوئے گزاریں اور وقت کے ظالم حکمرانوں کے سامنے جھکنے کی بجائے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات پر من و عن عمل در آمد کریں۔ جانثاران مصطفیٰ نے بارگاہ الٰہی میں جانوں کے نذرانے پیش کرکے دین اسلام سے اپنی وفاداری کو دنیا میں ضرب المثل بنادیا۔ سچے ایمانی جذبے سے ہی زندگی میں رحم و کرم، صبر و استقلال، ہمت و جوانمردی اور شہادت کی آرزو پیدا ہوتی ہے۔ آج مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتی مظالم سے کربلا کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔پاکستانی عوام نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اہل کشمیر کے بنیادی حقوق کے حصول تک ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ حکومت پاکستان کواقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی اداروں پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ ہندوستان جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کو ختم کرے، کرفیو ہٹائے، حریت رہنماؤں کی فوری رہائی کویقینی بنانے اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے بھرپور جدوجہد کی جائے۔اس ضمن میں حکومت پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف کے بیانات خوش آئند ہیں۔مگر اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کی آزادی کے لیے عملی اقدامات کا اعلان بھی کریں۔انسانی حقوق کی عالمی کونسل میں بھی 58ممالک کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش،اعلامیہ، ’’بھارت مقبوضہ کشمیر میں طاقت کا استعمال بند،کرفیو ختم،سیاسی قیادت کو رہا اور میڈیا کو بحال کرے‘‘ کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ دو ایٹمی طاقتیں جنگ کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں اگر عالمی برادری نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آ جائے گی۔ انڈیا ہتھیاروں کے زور پر جموں و کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔کشمیر انڈیا کا اندرونی معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ سات دہائیوں سے اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر موجودہے۔ بھارت اپنی آٹھ لاکھ فوج کے ذریعے 80 لاکھ لوگوں کو دائمی طور پر بنیادی حقوق بالخصوص اظہار کی آزادی سے محروم نہیں رکھ سکتا۔جموں و کشمیر میں اس کی فورسز نوجوانوں پر بہیمانہ تشدد کر رہی ہیں جبکہ وادی میں جان بچانے والی ادویات اور کھانے پینے کی اشیا کی قلت ہو چکی ہے۔ انڈیا انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں اور بین الاقوامی میڈیا کو اپنے زیرِ انتظام کشمیر میں رسائی دے۔پیلٹ گنز کے استعمال سے کشمیر کے نوجوان اپنی بینائی گنوا رہے ہیں جبکہ زخمی ہونے پر وہ ہسپتال جانے سے بھی گھبراتے ہیں کہ کہیں انھیں انڈین فورسز گرفتار نہ کر لیں۔یہ گزشتہ صدی کی بات نہیں ہو رہی بلکہ یہ ظلم و ستم 21 ویں صدی میں ہو رہا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی دعویدار اور سلامتی کونسل کی مستقل رکن بننے کی خواہش رکھنے والی مملکت ہندوستان کا اصل چہرہ بے نقاب ہو گیاہے۔موجودہ لاک ڈاؤن اور کرفیو میں نرمی لائی جائے تاکہ لوگوں کو بنیادی سہولتیں مل سکیں۔

مسئلہ کشمیر حل کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو عوامی مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے۔نوجوان کسی بھی قوم کا حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں۔ باشعور اور مہذب اقوام نوجوانوں کو اپنا مستقبل تصور کرتی ہیں۔ برسرروزگار، تعلیم یافتہ اور ہنرمند نوجوان ہی کسی ملک اور قوم کی داخلی معیشت اوروقار کے استحکام کا باعث ہوتے ہیں۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ وسائل، تعلیم، ذرائع اور ٹیکنالوجی کی بے تحاشا ترقی کے باوجود پاکستان میں بڑی تعداد میں نوجوان بیروزگاری سے دوچار ہیں۔ جو کہ اس امر کاثبوت ہے کہ وسائل و ذرائع چند مراعات یافتہ مخصوص طبقات کے افراد کے ہاتھوں مرتکز ہو چکے ہیں۔ نوجوان پاکستان کا مستقبل اور قیمتی اثاثہ ہیں کیونکہ تعلیم یافتہ نوجوان ترقی یافتہ پاکستان کی ضمانت ہیں۔ پاکستان ایک خوش قسمت ملک ہے جس کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور نوجوان پاکستان کا تابناک مستقبل ہیں، جنہیں معیاری تعلیم، اسکل ڈویلپمنٹ اور دیگر فنی علوم سے آراستہ کرکے اپنے پائوں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لے کر دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں میرٹ کا سختی سے خیال رکھا جائے کیونکہ اس کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں نوجوانوں کی بڑی تعداد مستقبل سے مایوس ہو کر بیرون ملک کا رخ کررہے ہیں۔ انہیں صحت مند سرگرمیوں کے فروغ کے لیے کھیل کے میدان اور تفریح کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں علاقائی کھیلوں کو فروغ دے کر مقامی نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ معاشرہ تب تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس ملک کے نوجوان اپنا مثبت کردار ادا نہ کریں۔اس مملکت خداداد کے حصول کی جدوجہد میں نوجوان ہی تھے جو قائد اعظم ور ان کے ساتھیوں کے دست و بازو بنے۔بدقسمتی یہ ہے کہ ملک کے منافع بخش ادارےاین ایچ اے 133ارب،ریلوے 41، پی آئی اے 40ارب، اسٹیل مل 14ارب اورشعبہ توانائی 130ارب روپے کے خسارے میں ہیں۔ 22کروڑ آبادی میں صرف14فیصد شہری ایسے ہیں جن کے پاس پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں باقاعدہ ملازمتیں ہیں۔ بھٹہ پر35فیصد،زرعی شعبہ میں 48.6 فیصد،قالین سازی میں 62فیصد اور غیر رسمی شعبے میں 85.8 فیصد مزدور مردوخواتین کام کررہے ہیں۔ جاگیرداری نظام ہمارے ملک کی جڑوں کوکھوکھلا کررہا ہے اور حکمران تمام ترکوششوں کے باوجود اس کو ختم کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔گزشتہ 72برسوں سے محنت کش طبقے کااستحصال کیاجارہا ہے۔سرمایہ داری نظام بھیانک شکل میں آچکا ہے اور وطن عزیز میں حالات بدسے بدترہوتے جارہے ہیں۔ جان لیوامہنگائی نے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی قوت خرید کوبری طرح متاثر کیا ہے۔ اس وقت پاکستان میں مزدوروں سے متعلق اہم لیبر قوانین میں فیکٹریزایکٹ1993،پنجاب انڈسٹریل ریلشنز ایکٹ2010،معاوضہ جات کا قانون 1923، تنخواہوں کی ادائیگی کا ایکٹ 1936، کم ازکم اجرت آرڈیننس 1961،ایمپلائز سوشل سیکورٹی آرڈیننس 1965اور ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ ایکٹ 1976لاگو ہیں۔ بدقسمتی سے قانون سازی کے باوجود ان پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔ محنت کش اور مزدورکسی بھی ملک کی صنعتی ومعاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مزدور خوشحال ہوگا توملک خوشحال ہوگا۔ مزدوروں کے بچوں کومفت تعلیم اورصحت کی سہولیات فراہم ہونی چاہئیں،انہیں مالکانہ حقوق پر مفت رہائشی سہولیات فراہم کی جائیں۔ قوم منتظر ہے کہ پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کب پور ا ہو گا۔

تازہ ترین