• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لگتا ہے افلاک سے ناموں کاجواب آنا شروع ہو ہی گیا ہے یعنی طنز و مزاح لکھنے والے آہستہ آہستہ سامنے آنے لگے ہیں۔ تیز تیز چلتے ہوئے اس لئے نہیں کہ اس راستے پر ڈگمگانے کا بہت خطرہ ہوتاہے۔ مزا ح کی رسی پر چلتے ہوئے اگر ذرا سا قدم غلط پڑے تواپنے فن کا مظاہرہ کرنے والا قعرمذلت میں جاگرتاہے چنانچہ یہ ادب کا وہ شعبہ ہے جس میں ہر کوئی سوچ سمجھ کرداخل ہوتا ہے۔ زندہ لوگوں میں ابھی ہمارے پاس کوئی دوسرا مشتاق احمدیوسفی نہیں ہے اور نہ ہی رفتگان میں سے کوئی پطرس بخاری، شفیق الرحمن یا ابن انشاء ہمیں دستیاب ہے۔ البتہ ”اِن میکنگ“ بہت سے لوگ ہیں خصوصاً کراچی کے دگرگوں حالات کا ردعمل قہقہے کی صورت میں سامنے آنے لگا ہے۔ یہ وہ ہنسی ہے جس کے پیچھے آنسو چھپے ہوتے ہیں۔ چندروز قبل مجھے مرزا عابد عباس صاحب کی ”شریر خامہ“ اور شجاع الدین غوری صاحب کی طرف سے ”نیرنگ مزاح“ موصو ل ہوئی۔ یہ دونوں کتابیں کراچی سے شائع ہوئی ہیں اور معیاری مزاح کا نمونہ ہیں۔ صابر بدر جعفری ان کے علاوہ ہیں جن کی طنز و مزاح کی خوبصورت کتاب اشاعت کے مراحل میں ہے۔ اسی شہر میں میرے پرانے دوست اور کہنہ مشق مزاح نگار ایس ایم معین قریشی بھی ہیں اور ہمیشہ کی طرح ان کی تحریر آج بھی تر و تازہ ہے۔ کراچی ہی میں یا شاید حیدرآبادمیں ایک ”زعفرانی“ محفل انوار علوی صاحب نے بھی جمائی ہوئی ہے اور ان کے ”متاثرین“ میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ جہاں تک اسلام آبادکا تعلق ہے یہاں مزاحیہ شاعری اپنے عروج پر ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم یہاں ہیں۔ طنز و مزاح کی اعلیٰ پائے کی شاعری کرنے والے سرفراز شاہد کو اس منظرنامے میں ایک کمی محسوس ہوئی۔ انہوں نے سوچا کہ اس شہر ستم میں نری طنزیہ شاعری سے کام نہیں چلے گا بلکہ ”حالا نشرِ من بشنو“ کہنے کی بھی ضرورت ہے چنانچہ انہوں نے ”خوش نما“ کے نام سے طنز و مزاح کے ایک خوبصورت جریدے کا آغاز بھی کر دیا جس سے میرے مرحوم بھائی جان ضیاء الحق قاسمی کے جریدے ”ظرافت“ کا حصہ بھی پر ہوگیا۔ اس سے قبل پورے پاکستان میں ”ماہنامہ چاند“ کے علاوہ طنزومزاح کا کوئی رسالہ شائع نہیں ہوتا تھا۔ مزاح کی کمیابی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ایک ارب کی آبادی والے ہندوستان میں اردو کا صرف ایک جید مزاح نگار ہے جس کا نام مجتبیٰ حسین ہے اور طنزو مزاح کا صرف ایک جریدہ ”شگوفے“ ہے جو حیدرآباد دکن سے نکلتاہے اور جس کے مدیر سید مصطفی کمال ہیں۔ مزاح لکھنا جان جوکھوں کا کام ہے لکھنے بیٹھو تو دانت تلے پسینہ آ جاتا ہے اوراگر کسی جملے کا وار صحیح نہ پڑے تو پڑھنے والا دانت کچکچانے لگتا ہے۔ چنانچہ طنزومزاح لکھنے والے نہ ہوں تو جریدے کہاں سے نکلیں؟
یہی وجہ ہے کہ جب چند برس پیشتر ایک خوبصورت بے بی گلیسکو ٹائپ نوجوان سے میری ملاقات ہوئی اور پتہ چلا کہ موصوف مزاح لکھتے ہیں تو مجھے ان کی کوئی تحریر پڑھے بغیر ان کے چہرے کے شرارتی تاثرات دیکھ کر یقین ہوگیاکہ یہ بندہ ضرور مخولیا مضمون لکھ سکتا ہے جس کا نام مظفر محسن ہے اور وہ اپنے نام کے شروع میں ”حافظ“ بھی لگاتا ہے۔ اب اللہ جانے یہ حضرت بھی عزیر احمد کی طرح کے ”حافظ“ ہیں جنہوں نے اپنے خاندان میں حفاظ کی کثرت دیکھ کر اپنے نام کے ساتھ بھی شو، شا کے لئے ”حافظ“ لگا لیا یا مظفر صاحب دیوانِ حافظ کے شیدائی ہیں اوریوں وفورِ عقیدت کی وجہ سے حافظ کہلانے لگے ہیں یعنی ”رانجھا رانجھا کردیاں، میں آپے ای رانجھا ہوئی“ دراصل میں نے کچھ دوستو ں کے نام کے ساتھ ”جعفری“ لکھا دیکھا توپوچھاکیاآپ حضرت امام جعفر صادق  کی اولاد میں سے ہیں؟“ تو انہوں نے جواب دیا ”نہیں محض حضرت امام  سے عقیدت کے اظہار کے لئے لفظ ”جعفری“ کو اپنے نام کا حصہ بنایا ہے۔“میں نے کہا ”اگر ایساہے تو حضور سے عقیدت کے حوالے سے اپنے نام کے ساتھ سیدھا ”سید“ ہی لکھ لیا کریں۔“ ان میں سے دو ایک نے تو شکریئے کے ساتھ میرا مشورہ قبول کیا اورآج وہ اپنے علاقے میں سیدہی مشہور ہیں!
آپ بجا طورپر پوچھ سکتے ہیں کہ اس سارے قصے میں قبلہ حافظ مظفرمحسن اور ان کامزاحیہ مضامین کی کتاب ”بونا نہیں بے وقوف“ کہاں ہیں جس پر اظہار خیال کے لئے مجھے یہاں مدعو کیا گیا ہے۔ توبات یہ ہے کہ اگر میں شروع میں اس کتاب پر اظہار خیال کرتا تومیری گفتگو اس جملے کے بعد ختم ہو جانا تھی کہ ”بہت اچھے شگفتہ مضامین ہیں۔ اللہ کرے زورِ قلم اورزیادہ!“ وجہ صاف ظاہر ہے اور آپ سب جانتے ہی ہیں کہ تنقید میرا موضوع ہی نہیں ہے۔ دوسروں کوچھوڑیں مجھے تو خود پرہونے والی ”تنقید“ بھی اچھی نہیں لگتی۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے سارا زور اس امر کے بیان میں صرف کر دیا کہ طنزومزاح کے اکھاڑے میں لنگوٹ کس کے اترنا اتنا آسان نہیں جتنا نظر آتا ہے۔ جو جوانمردجی کڑاکرکے اس اکھاڑے میں اترے ان میں سے بھی بیشتراس صنف کو پچھاڑنا تو کجا پوری قوت سے اس کی ”بینی“ پکڑنے میں بھی کامیاب نہ ہوسکے اوریوں اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ بس اسی پس منظر میں مجھے حافظ مظفرمحسن کو خوش آمدیدکہنا ہے کہ گنتی کے چند افراد پر مشتمل ہمارے قبیلے میں ایک اورفردکااضافہ ہوا ہے۔ آثاربتارہے ہیں کہ یہ نوجوان کچھ کرکے ضرور دکھائے گا۔ ملاقات سے پہلے اخبارات کی ورق گردانی کرتے ہوئے کبھی کبھار مظفر کی کوئی تحریر نظر سے گزر جاتی۔ وہ تحریر نہ تومکمل طنزیہ مزاح کے زمرے میںآ تی اور نہ ہی سنجیدہ نثر کے زمرے میں شمار ہوتی بلکہ ان دونوں کے مابین ”وکھری ٹائپ“ کی کوئی تحریر لگتی۔ مظفر# سے جب دو چار ملاقاتیں ہوئیں تواندازہ ہوا کہ وہ صرف شگفتہ نثر ہی نہیں لکھتا بلکہ طنزیہ جملوں کے تیربرساتا، شرارتیں اورچھیڑخانیاں بھی کرتا ہے۔ حافظ مظفر محسن کی تحریر میں اس کی شخصیت کے یہی پہلو جھلکتے ہیں لہٰذا اس کی تحریر پڑھ کر اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ روزمرہ کے واقعات کو موضوع سخن بناتا اورہمارے اردگرد پھیلے کرداروں کوکٹہرے میں لاکھڑا کرتاہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ان کرداروں سے چھیڑخانیاں اور مستیاں کرکے پھر ان سب کو باعزت بری بھی کر دیتاہے۔ مظفر محسن کو مزاح لکھنے کا حق اس لئے بھی حاصل ہے کہ اس کے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ ہروقت پھیلی رہتی ہے جو فی زمانہ کسی صدقہ جاریہ سے کم نہیں۔ مجھے یہ شخص پسند ہے کیونکہ وہ ایک سچا اور مخلص انسان ہی نہیں بلکہ ایک شگفتہ انسان اور جینوئن لکھاری بھی ہے!
بس بہت ہوگئی اس سے زیادہ سنجیدہ بات نہیں ہوسکتی۔ میری باتیں سننے سے بہتر ہے کہ آپ مظفر کی کتاب پڑھیں۔ یہ وقت کا زیادہ بہتراستعمال ہے!
وضاحت
میرے گزشتہ پیر وار کے کالم کے حوالے سے برادر ِ عزیزشبلی فراز نے فون پرمجھے بتایا کہ تحریک انصاف کے چاچا ہمایوں کو یونین کونسلوں کے منتخب ارکان نے ووٹ ڈالے ہیں اوریوں انہیں پڑنے والے ووٹ دراصل کوہاٹ کے 73ہزار ارکان کے نمائندوں کے ووٹ ہیں۔ میں ان کی اس اطلاع کیلئے ان کا ممنون ہوں۔
تازہ ترین