• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایم ایف نے عالمی تجارتی تنازعات اور معاشی بے یقینی کی بنیاد پر 2020ءمیں دنیا میں معاشی سست روی کی پیشگوئی کی ہے۔ آئی ایم ایف نے ممبر ممالک سے درخواست کی ہے کہ وہ آپس کے تنازعات کو ٹیرف کے ذریعے ہدف بنانے کے بجائے اِنہیں باہمی مذاکرات سے حل کریں۔ آئی ایم ایف کی ورلڈ اکنامک آئوٹ لک کی گلوبل پیشگوئی میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی 2019ءمیں اوسطاً معاشی گروتھ 3.2 فیصد اور 2020ء میں 3.5فیصد متوقع ہے۔

قارئین! اس وقت دو بڑی معاشی طاقتوں امریکہ اور چین کے مابین تجارتی تنازعات نے دنیا کی تجارت اور عالمی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہوا ہے۔ امریکہ نے چین کی 300ارب ڈالر کی الیکٹرونکس اور دیگر مصنوعات پر یکم ستمبر 2019سے 10فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی لگانے کا اعلان کیا ہے جبکہ چین نے بھی اِسی طرح کے اقدامات کا عندیہ دیا ہے۔

انہی بنیادوں پر آئی ایم ایف نے 2019میں امریکہ کی جی ڈی پی گروتھ 2.6فیصد اور 2020میں 1.9فیصد کی پیش گوئی کی ہے جبکہ 2019میں یورو زون کی گروتھ 1.6فیصد اور 2020میں 1.3فیصد متوقع ہے۔

رپورٹ میں چین کی 2019میں جی ڈی پی گروتھ گر کر 6.2فیصد اور 2020میں 6فیصد ہونے کا عندیہ دیا ہے جبکہ عالمی کساد بازاری، بریگزٹ اور امریکہ، ایران تنازعات کے باعث چین، جاپان، برازیل، میکسیکو، روس، بھارت اور جنوبی افریقہ کی جی ڈی پی گروتھ میں سست روی کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ ابھرتی اور ترقی پذیر معیشتوں میں 2019میں جی ڈی پی گروتھ 4.1فیصد اور 2020میں 4.7فیصد جبکہ لاطینی امریکہ کی معیشتوں میں 0.8فیصد کم گروتھ رہنے کی توقع ہے۔

آئی ایم ایف نے WTOسے درخواست کی ہے کہ وہ نئی ڈیجیٹل سروسز اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کیلئے اپنے قوانین پر نظرثانی کرکے جدید قوانین مرتب کریں تاکہ اس طرح کے تنازعات عالمی پلیٹ فارم پرحل کئے جاسکیں۔

حال ہی میں چین میں میری قیادت میں فیڈریشن کے 5 رکنی وفد نے چین کے شہر زیامین میں 7سے 10ستمبر تک سی سی آئی آئی پی کے زیر اہتمام منعقدہ ’’چائنا انٹرنیشنل فیئر اینڈ انویسٹمنٹ فورم‘‘ میں شرکت کی۔

فورم میں مصر کے سابق وزیراعظم پروفیسر ڈاکٹر ایسام عبدالعزیز شراف، جرمنی کے سابق وزیر دفاع روڈ ولف البرٹ سکارپنگ، امریکہ کے سابق سیکرٹری تجارت کارلوس گٹیرز، سربیا کے نائب وزیراعظم راسم لجک بھی شریک تھے۔

میں نے پینل ڈسکشن میں کہا کہ دنیا کی معیشت کو عالمی معاشی بے یقینی کے باعث شدید چیلنجز کا سامنا ہے جس میں برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلا، تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں، کرنسیوں کی قیمت میں عدم استحکام، امریکہ اور چین کے مابین تجارتی جنگ شامل ہیں اور دنیا کی بڑی معیشتوں کو تجارتی اختلافات ختم کرکے بے یقینی کی صورتحال کو ختم کرنا ہوگا۔

عالمی بینک نے پاکستان کی بدتر معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور صنعتی اور زرعی شعبے میں کم گروتھ کی پیش گوئی کی ہے۔ عالمی بینک نے عندیہ دیا ہے کہ اگر پاکستان معاشی اصلاحات کرتا ہے تو 2021ءمیں پاکستان کی شرح نمو بہتر ہوکر 4فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔

پاکستان میں عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر الانگو پچاوتھو نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں گزشتہ دو سال ایکسپورٹ کے مقابلے میں امپورٹس میں اضافہ ہوا ہے۔

عالمی اداروں کی پاکستان کی کم ترین اقتصادی گروتھ اور غیر تسلی بخش معاشی کارکردگی کے باعث ملک میں بیرونی سرمایہ کاری نہیں آرہی۔ روپے کی غیر یقینی قدر کی وجہ سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی ہے۔

اسٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال حکومتی قرضے 9ماہ میں گزشتہ سال کے 12مہینوں کے قرضوں سے زیادہ ہو چکے ہیں جبکہ غیر ملکی قرضے 99ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔

گردشی قرضے اور نقصان میں چلنے والے حکومتی ادارے اسٹیل ملز، واپڈا، ریلوے اور پی آئی اے قومی خزانے پر مسلسل بوجھ ہیں۔ رواں مالی سال جولائی سے مارچ تک حکومت نے ان اداروں کیلئے بینکوں سے 303ارب روپے قرض لئے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 81فیصد زیادہ ہیں۔

قارئین! عالمی اداروں کی ملکی معیشت کے بارے میں مایوس کن رپورٹ یقیناً ایک تشویشناک بات ہے۔

رئیل اسٹیٹ کاروبار جمود کا شکار ہے۔ ایف بی آر کے نئے ویلیو ایشن ٹیبل اور معیشت کو دستاویزی شکل دینے کی وجہ سے اس شعبے سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کار اب اپنے غیر ظاہر شدہ پیسے رئیل اسٹیٹ کاروبار میں استعمال نہیں کر سکتے جس کی وجہ سے یہ شعبہ اور اس سے منسلک 40دیگر شعبے بھی مندی کا شکار ہیں۔

معاشی سست روی کی وجہ سے ایف بی آر کے ریونیو وصولی کے ہدف میں کمی ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق مڈل ایسٹ، نارتھ افریقہ، افغانستان اور پاکستان ریجن (MENAP) کی 2019میں گروتھ 1.5فیصد اور 2020میں 3.2فیصد تک ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے بارے میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ نے 2019میں پاکستان کی گروتھ 2.9فیصد اور 2020میں 2.8فیصد کی پیش گوئی کی ہے۔

ان کے مطابق اگر پاکستان نے اس عرصے میں موثر اصلاحات نہیں کیں تو 2024تک ہماری گروتھ گر کر 2.5فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔

میں نے گورنر اسٹیٹ بینک اور بینکوں کے صدور کو فیڈریشن ہائوس میں اپنی حالیہ میٹنگ میں بتایا کہ اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ 13.25فیصد ہونے کی وجہ سے بینکوں کے لینڈنگ ریٹس 16سے 17فیصد تک ہوگئے ہیں جس پر کوئی نئی صنعت لگانا ممکن نہیں لہٰذا آنے والے وقت میں نئی صنعتوں میں سرمایہ کاری نہایت مشکل نظر آتی ہے جس کی وجہ سے نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا نہیں ہو سکیں گے اور ملک میں بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوگا۔

آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی پیش گوئیاں بھی اس بات کا عندیہ دیتی ہیں کہ پاکستان کی معیشت آنے والے دو سالوں میں شدید دبائو کا شکار رہے گی لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ موثر معاشی اصلاحات کرکے پاکستان کو تیز جی ڈی پی گروتھ والے ممالک میں شامل کرے۔

تازہ ترین