• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گوجرانوالہ کے نواحی علاقے آدھورائے سے آنے والی یہ دو سطری خبر کہ آرا مشین پر کام کرنے والے ایک پندرہ سالہ ملازم کا ہاتھ مالک نے محض چھ ماہ سے تنخواہ نہ ملنے کی شکایت پر قلم کر دیا، اپنے سینے میں انسان کا دل رکھنے والے کسی بھی شخص کو لرزا کر رکھ دینے بلکہ ایسے معاشرے میں رہنے بسنے سے بیزار کر دینے کے لئے کافی ہے جہاں درندہ صفت لوگوں کو سنگدلی و سفاکی کی ایسی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہو۔ خبر میں اس کے علاوہ مزید کوئی تفصیل نہیں کہ وحشیانہ ظلم کا شکار ہونے والے بچے کا نام احتشام حسین ولد سمیع اللہ اور آرا مشین کے مالک کا نام محمد حسین ہے؛ تاہم یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ ملک کے مختلف حصوں خصوصاً صوبہ پنجاب میں ایسی وارداتیں معمول کا حصہ ہیں۔ لاہور کے علاقے اقبال ٹاؤن میں سولہ سالہ گھریلو ملازمہ عظمیٰ بی بی کا صرف اس قصور پر مالکن کے ہاتھوں جان لیوا تشدد کا نشانہ بننا کہ اس نے گھر والوں کا کھانا چکھ لیا تھا، لاہور ہی میں گیارہ سالہ سمیرا کا استری سے جلایا جانا، جڑانوالہ کی پندرہ سالہ گھریلو ملازمہ سویرا کا ایک شیشہ ٹوٹ جانے پر اس بری طرح زد و کوب کیا جانا کہ وہ ہمیشہ کے لئے ٹانگوں سے معذور ہوگئی اور فیصل آباد کی دس سالہ گھریلو ملازمہ طیبہ کے ساتھ ایک جج کی بیوی کا انسانیت سوز سلوک، وحشت و سنگ دلی کی بے شمار داستانوں میں سے چند ایسی داستانیں ہیں جنہیں پولیس اور میڈیا تک پہنچنے سے روکا نہیں جا سکا۔ گوجرانوالہ کا روح فرسا واقعہ جس کے مرتکب کو بلاتاخیر قرار واقعی سزا دی جانی چاہئے، اس فہرست میں ایک اور ہولناک اضافہ ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے، یہ سوچنا اور اس کی روک تھام کے لئے مؤثر اقدامات عمل میں لانا حکومت اور عدلیہ ہی نہیں پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے کیونکہ تاریخ کی گواہی ہے کہ معاشرے کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتے ہیں، ظلم کے ساتھ نہیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین