• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ویلنٹائن ڈے کے موقع پر ایک لڑکی بک اسٹال پر گئی اس نے کہا کہ آپ کے پاس کوئی ایسا کارڈ ہے جس پر یہ لکھا ہو کہ تم دنیا میں میری اکلوتی محبت ہو۔ سیلز مین نے کہا جی بالکل ایسا کارڈ ہے مثبت جواب پا کر لڑکی بڑی خوش ہوئی اورکہنے لگی کہ پھر آپ مجھے ایسے بارہ کارڈ دے دیں۔ آج ویلنٹائن ڈے کے موقع پر پتہ نہیں کتنے لوگ اس لڑکی کی پیروی کریں گے۔ محبت کے اظہار کا ایک ہی طریقہ نہ جانے کتنے لوگوں پر آزمایا جائے گا۔ میرے پچھلے کالم میں کچھ شادیوں کا تذکرہ تھا اس پر مجھے پوری دنیا سے بے شمار ای میلز موصول ہوئیں کئی دوستوں نے فون کر کے یکجہتی کا اظہار کیا، چند ایک تو ایسے تھے کہ انہوں نے مجھے طعنہ دیا کہ آپ نے بعض لوگوں کا نام جان بوجھ کرنہیں لکھا سو آج میں ان کا اعتراض دور کرنے کی کوشش کروں گا۔ پنجاب اسمبلی کی ایک سابق رکن اور مسلم لیگ ن کی رہنما شہلا راٹھور نے بڑا لمبا چوڑا تبصرہ کیا انہوں نے خاص طور پر عائلہ ملک کے دکھ پر بہت اعتراض کیا۔ میں نے انہیں یہ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کی کہ آپ کو عائلہ ملک کا تذکرہ اس لئے برا لگتا ہے کہ ان کا تعلق تحریک انصاف سے ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کے اندر عائلہ ملک کی محنت کو بہت سراہا جا رہا ہے لہٰذا ن لیگ کو تحریک انصاف کا ہر وہ بندہ برا لگتا ہے جو بہت زیادہ محنت کرتا ہو۔
میرے دوستوں کو زیادہ اعتراض اس بات پر تھا کہ میں نے پیپلز پارٹی کے لوگوں کا تذکرہ جان بوجھ کر کم کیا ہے حالانکہ کوئی ایسی بات نہیں تھی شیری رحمن، صغریٰ امام اور عظمیٰ بخاری کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے ہاں فرزانہ راجہ کا ذکر نہیں ہو سکا تھا ان کی دوسری شادی ہے، شگفتہ جمعانی نے شادی نہیں کی نہ ہی فوزیہ حبیب نے شادی کی ہے۔ نرگس فیض ملک اور پلوشہ خان نے بھی شادی نہیں کی۔ اسی طرح اے این پی کی بشریٰ گوہر نے بھی شادی نہیں کی۔ شازیہ مری نے ایک شادی کی ناکامی کے بعد دوسری شادی کا رسک نہیں لیا۔ زیب جعفر، تہمینہ دولتانہ اور سمیرا ملک نے دو، دو شادیاں کیں۔ انیسہ زیب طاہر خیلی اور نور جہاں پانیزئی نے شادی نہیں کی۔ ماروی میمن نے بھی ایک ناکامی کے بعد ابھی تک رسک نہیں لیا۔خواتین و حضرات! نور جہاں پانیزئی کے تذکرے کے ساتھ ہی مجھے ایک پرانا واقعہ یاد آ گیا ہے یہ واقعہ اس دور کا ہے جب نورجہاں پانیزئی سینیٹ کی ڈپٹی چیئرپرسن تھیں۔ ایک روز وہ اجلاس کی صدارت کر رہی تھیں کہ ان کے صوبے سے تعلق رکھنے والے ایک سینیٹر حافظ حسین احمد بار بار سرتاج عزیز کو سرچارج عزیز کہہ کر مخاطب کر رہے تھے ایک مرحلہ ایسا آیا کہ سرتاج عزیز غصے میں آکر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ میڈم چیئرپرسن! میرا نام سرتاج ہے، سرتاج۔ اس پر حافظ حسین احمد نے کہا کہ میڈم! آپ انہیں ”سرتاج“ کہہ سکتی ہیں۔ اس پر نورجہاں پانیزئی نے کہا کہ نہیں، میں تو انہیں ”سرتاج“ نہیں کہہ سکتی۔ اس پر حافظ صاحب گویا ہوئے کہ میڈم جب آپ انہیں سرتاج نہیں کہہ سکتیں تو میں کیسے کہہ سکتا ہوں۔آزاد کشمیر اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شاہین ڈار نے بھی شادی کر رکھی ہے مگر ایک عرصے سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ اس کشیدگی سے مجھے یاد آیا کہ ہمارے معاشرے میں طلاق کی شرح روز بروز بڑھ رہی ہے اس کی واحد وجہ عدم برداشت ہے، والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو خاص طور پر برداشت کا درس دیا کریں کہ برداشت سے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ برداشت کے نام سے نیلوفر بختیار نے ایک این جی او بھی بنا رکھی ہے انہیں چاہئے کہ وہ بھی اس طرف توجہ دیں کہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے اس مرض کا علاج ہو سکے۔ببلو کی شادی کا ذکر بعد میں پہلے تھوڑا سا تذکرہ الیکشن کمیشن کا ہو جائے کہ آج کل الیکشن کمیشن زیربحث ہے مجھے حیرت ہے کہ ایسا الیکشن کمیشن قوم کے ساتھ کیا کرے گا جس کا سیکرٹری دو شاعروں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکا۔ پچھلے دنوں سیکرٹری الیکشن کمیشن نے ایک ٹی وی اینکر کو انٹرویو دیتے ہوئے دو مصرعے پڑھ ڈالے مگر دونوں مصرعوں کے شعراء کا نام غلط لیا۔ مثلاً جیتے جاگتے شعیب بن عزیز کا مصرع یہ کہہ کر پڑھا کہ جیسا کہ ناصر کاظمی نے کہا تھا کہ
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
پورا جگ جانتا ہے کہ یہ مصرع شعیب بن عزیز کا ہے مگر الیکشن کمیشن کی نظر میں ہو سکتا ہے کہ یہ ناصر کاظمی ہی نے کہا ہو۔ اسی طرح سیکرٹری صاحب نے صادق حسین شاہ کا کہا ہوا شعر علامہ اقبال سے منسوب کر دیا۔
سچی بات یہ ہے کہ میں ذاتی طور پر الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کی اس کارکردگی سے مایوس ہوا ہوں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔لاہور میں میری ایک اداکارہ دوست نے ایک کتا پال رکھا ہے اس نے اس کا نام ببلو رکھا ہوا ہے۔ اداکارہ نے ببلو کو بڑے ناز نخرے سے پالا ہے وہ اس کیلئے جرمنی سے میڈیکیٹڈ دودھ منگواتی تھی، انگلینڈ سے شیمپو اور امریکہ سے دوائیاں۔ قیمہ لاہور سے خریدتی تھی ببلو کیلئے اس نے ایک مہنگا کمبل منگوایا اب جب ببلو سال کا ہوگیا ہے تو وہ بڑی خوش ہے۔ پچھلے دنوں وہ اسلام آباد آئی تو مجھے بھی ملنے آئی۔ تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد وہ بڑی سنجیدگی سے کہنے لگی کہ میں سوچ رہی ہوں کہ اخبار میں رشتے کیلئے اشتہار دوں۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ تمہیں رشتوں کی کمی ہے، تم کیوں اشتہار دینا چاہتی ہو۔ کہنے لگی اپنے لئے نہیں میں ببلو کے لئے اشتہار دینا چاہتی ہوں کیونکہ اس کیلئے اعلیٰ نسل کی فی میل چاہئے، پاکستانی نہیں کیونکہ میرا ببلو ٹاپ کی امریکی نسل کا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ میرے ایک دوست کے پاس بہت سے بیرونی کتّے ہیں امید ہے اس کے ہاں سے رشتہ ضرور مل جائے گا۔ یہ سنتے ہی وہ بے چین ہوگئی، بے چینی دیکھ کر میں اسے وزیر داخلہ رحمن ملک کے بھائی خالد ملک کے پاس لے گیا، اتفاق سے اس وقت خالد ملک کو بہت سے کتوں نے گھیر رکھا تھا بس پھر میں دور بیٹھا اپنے معاشرے کی بے حس محبتوں کے اوراق الٹ پلٹ کرتا رہا اور وہ خالد ملک سے ببلو کا رشتہ طے کرتی رہی۔ میں انسانوں کیلئے ناپید ہوتی ہوئی محبتوں کا ماتم کررہا تھا انسانوں سے انسانوں کی کم ہوتی ہوئی وفا کا رونا رو رہا تھا کہ وہ بھاگتی ہوئی میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ ببلو کا رشتہ طے ہو گیا ہے اب ببلو کی شادی ہوگی اور تم شادی میں ضرور آؤ گے۔ میں نے بے بسی میں کہاکہ تیرہ فروری کو فیض احمد فیض کا جنم دن ہے لہٰذا
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اپنی بے بسی پر ترس آیا کہ کیسا دور آگیا ہے کہ اب ببلو کی شادی کا دعوت نامہ مل رہا ہے، پتہ نہیں کیوں مجھے ناصرہ زبیری کا یہ شعر رہ رہ کر یاد آتا رہا کہ
شدت عشق کوکیا روئیں کہ ہم نے دل میں
درد دنیا بھی ضرورت سے زیادہ رکھا
تازہ ترین