• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طالبان و نام نہاد مجاہدین کے 10سالہ دور کے بعد برسر اقتدار آنے والے روشن خیال 19سال میں بھی افغانستان میں روشنی نہ پھیلا سکے۔ کابل حکومت امریکی امداد کے اربوں ڈالر لٹانے پر بھی اصل مرض کے علاج میں ناکام نظر آتی ہے۔ یا تو یہ امریکہ، افغان حکومت و دیگر متعلقہ طاقتوں کی عیاری ہے یا پھر اُن کی کوتاہ نظری کہ وہ افغانستان کے استحکام کو لاحق اصل مرض جو ظاہر و باہر ہے، کے علاج کیلئے کوئی نتیجہ افروز قدم نہیں اُٹھا سکے۔ بنابریں کتنے ہی آپریشن کئے جائیں، یہ اتائی دوا ہی ثابت ہوگی۔ اس مرض کی نشاندہی کیلئے آئیے جہاندیدہ سیاستدان خان عبدالولی خان سے رجوع کرتے ہیں۔ اپنی کتاب ’باچا خان اور خدائی خدمتگاری‘ میں 1978ء میں برپا ہونے والے افغان ثور انقلاب کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں ’’میں نہیں سمجھتا کہ کابل میں بیٹھے خلق و پرچم انقلابی جماعتوںکے اکابرین ’کابل کے باہر‘ کے حالات سے باخبر نہ ہوں، وہ یہ کہ یہ خانہ بدوش معاشرہ ہے جو قبائلی خصوصیات رکھتا ہے، بے تعلیم ہے، مولویوں کے زیر اثر ہے۔ امیر امان اللہ خان کے ساتھ اسلام کے نام پر کیاگیا اور کس لئے کیا۔ تو ان انقلابیوں نے یہ نہ سوچا کہ اگر ماضی میں برطانیہ نے اسی طبقے کو غازی امان اللہ خان کے خلاف استعمال کیا تھا، تو آج امریکہ کیونکر ایسا نہیں کرے گا، کیا انقلابی خطے اور بین الاقوامی قوتوں کی ضرورتوں سے بھی بے خبر تھے؟ یہ تو اپنے راہبر لینن کے اس فلسفے کو بھی بھول گئے کہ انقلاب کیلئے موزوں حالات ناگزیر ہوتے ہیں (جلد سوم ص 67۔266) یاد رہے کہ انقلاب کے وقت صرف 14فیصد ملکی آبادی شہروں میں رہتی تھی، 90فیصد آبادی ناخواندہ تھی، صنعتی محنت کش 40سے 50ہزار تھے جو کابل سمیت 3سے 4شہروں میں موجود تھے۔ یہ باتیں گزشتہ ہفتے کابل میں ہونے والی امن کانفرنس سے یاد آگئیں، جس میں پاکستان سے بھی بعض سیاسی زعما شریک ہوئے۔ ایک خیال یہ ہے کہ یہ کانفرنس پاکستان میں جون 2019ء میں منعقدہ اُس کانفرنس کا جواب تھا جس میں افغانستان سے بعض پاکستان دوستوں نے شرکت کی تھی۔ ہم مگر اس کانفرنس کو افغان حکومت کی کوشش برائے امن سے ہی تعبیر کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس طرح کی قبل ازیں ہونے والی کانفرنسیں آخر کیوں ثمربار نہ ہو سکیں؟ جیسا کہ ولی خان صاحب کا کہنا ہے کہ اصل توجہ کابل سے بھی زیادہ اُس معاشرے پر دینی چاہئے جو دیہات میں آباد ہے، اور اس پر اس طرح کی کانفرنسیں اثر تو کیا کریں کہ وہ اس سے آگاہ بھی نہیں ہوتے۔ اگرچہ پلوں تلے کافی پانی گزر چکا ہے اور اگر کل وقت کی تمام طاقتیں مخالف تھیں، آج موافق، لیکن ماضی میں لاحق مرض تو پھر بھی جوں کا توں ہی ہے۔ یہ تو کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کے افغانستان پر حملہ آور ہونے سے نظام کو استحکام نہیں مل پاتا لیکن یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اُن کا سہولت کار وہ قبائلی معاشرہ ہے جن تک کابل تاحال اپنی روشنی نہیں پہنچا سکا ہے۔ ایران اور شمالی کوریا کو افغانستان سے بھی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن یہ وہاں کے عوام کی تعلیمی و اقتصادی ترقی ہی ہے جو کسی بھی خائن پر دراندازی کے تمام تر دروازے بند رکھے ہوئے ہے۔ بدقسمتی سے ماضی کے افغان حکمرانوں نے جو طرزِ عمل کل اپنائے رکھا، وہ اب بھی رو بہ عمل ہے، ماضی میں جہاں کہیں بھی بغاوت نے سر اٹھایا تو افغان حکمرانوں نے باغیوں کو اپنے ساتھ ملا لیا، مگر اس بغاوت کی وجوہات ختم کرنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی کوئی ایسا سیاسی و معاشی نظام بنایا جو پورے افغانستان پر محیط ہو۔ موجودہ حکمران بھی گلبدین حکمت یار جیسے عناصر کو اپنے ساتھ شامل کرکے ایسے بغلیں بجاتے رہے، گویا اس نام نہاد مجاہد کے ہاتھ میں ہی امن و استحکام کی کنجی ہے۔ انتھرا پولوجی کے اُستاد محترم اشرف غنی بہتر جانتے ہیں کہ قبائلی معاشرہ سیاسی، علمی اور سماجی مقابلے میں حصہ لینے کے بجائے ماضی میں رہنا پسند کرتا ہے، چنانچہ وہ ارتقا کے فطری عمل کے خلاف مزاحمت کرنے والی قوتوں کو ہر مول دستیاب ہو جاتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کابل کبھی ہاتھی کے کان سے نکل کر باقی افغانستان کو بھی ایک نظر دیکھ لے۔

تازہ ترین