• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زہیرہ جمشید، سیال کوٹ

کچّے آنگن میں دھوپ سانپ کی طرح پَھن پھیلائے رینگ رہی تھی۔آنگن کے ایک طرف دو کمرے تھے، جن کی دیواریں پکّی اینٹوں کی بنی تھیں، لیکن چھت کچّی تھی۔ آنگن کے آخر میں گھر کا صدر دروازہ تھا، جس کے آگے ہلکے بادامی رنگ کا پردہ جھول رہا تھا۔ جو اس بات کا پیغام تھا کہ گھر میں بُت رکھے ہیں۔ 

آنگن کے بیچوں بیچ ایک نیم کا درخت تھا، جس کے زرد اور سوکھے پتّے اپنی عُمر قید کاٹ کر، راحت کی ہوا کے جھونکوں کے سنگ زندگی کی شاخ سے علیحدہ ہو کر ایسے گِر رہے تھے، جیسے روح، جسم سے چھٹکارا حاصل کر کے ہلکی پھلکی ہو جایا کرتی ہے۔ وہ اپنی آزادی پہ محوِ رقص تھے۔سورج کی چمکارے مارتی شعاؤں نے پورے آنگن کو سونے کا ورق بنا دیا تھا۔انہیں رقص کرتا دیکھ ،سبز پتّوں کی حسرت جاگ اُٹھی کہ نہ جانے وہ کب تک دوسروں کو سایہ مہیّا کرنے کے فرائض ادا کرتے کرتے دھوپ کی حدّت سے جلتے رہیں گے۔

درخت کے نیچے بان کی بنی چارپائی پڑی تھی، تو دوسری جانب پانی سے بھرا مٹکا دھرا تھا، جس پر کانچ کا گلاس اوندھا رکھا تھا۔کمروں کے ساتھ ہی رسوئی گھر تھا۔ جس کی چھت گندم کے خالی سِٹّوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔بنانے والے نے اس کی دونوں دیواروں میں سوراخ رکھ چھوڑے تھے۔وہ رسوئی گھر میں دھوئیںکے ساتھ خوددھواں ہو رہی تھی۔کئی بار کوشش کے باوجود اب جاکر آگ جلی، تودودھ کی پتیلی مٹّی سے بنے چولھے پر رکھ دی۔ 

دھوئیں کی کڑواہٹ سے اس کی آنکھیں سُرخ ہورہی تھیں، اتنے میں اس کی بیٹی ،جو غالباً دو سال کی تھی ، چھوٹے چھوٹے لڑکھڑاتے قدم اُٹھاتی کمرے سے باہر آئی۔ چلتے چلتے وہ مٹکے تک جا پہنچی اور اس پر رکھا کانچ کا گلاس اٹھانا چاہا ،جو گرفت مضبوط نہ ہونے کے باعث نیچے گرکر ٹوٹ گیا۔اس نے دیوار کی جِھری سے اُسے دیکھا اور لبوں کو ایک دوسرے میں سختی سے پیوست کر لیا۔جیسے آنے والی آفت پہ اپنے لب صبر کے دھاگے سے سیے ہوں۔ دوسرے کمرے سے اس کی ساس اس شور کے باعث اپنےبھاری وجود کو سنبھالتے باہر آدھمکی۔ 

منہ میں ایک طرف پان کا گولہ دبائے چارپائی پہ دَھپ سے بیٹھی اور شروع ہوگئی ’’ہاں ہاں… تیری ماں جہیز میں لائی تھی ناںیہ سارے کانچ کے برتن، جو اس طرح توڑتی پھر رہی ہے منحوس نہ ہو تو…‘‘اور ساتھ ہی پان کی پچکاری کچّے صحن کے سینے پہ اُگل دی۔ جب آنگن میں بکھرے پتّوں پر اس پچکاری کے چھینٹے پڑے تو رقص کرتے پتّے بے جان ہوگئے۔

اُدھر رسوئی میں بیٹھی مہرین کی آنکھیں مزید سُرخ ہونے لگیں۔ جہیز میں سب سے قیمتی چیز وہ صبر کا پیالہ لائی تھی،جس کی وسعت اس کائنات جتنی تھی یا پھر وہ پیالہ بغیر پیندے کا تھا کہ اتنے سالوں میں ایک دفعہ بھی لبریز نہ ہوا۔وہ ہاتھ دوپٹے کے پلّو سے صاف کرتی، رسوئی گھر سے نکلی تاکہ کانچ اٹھا سکے۔ نظر بھر منّی کو دیکھا، جو سہم کر رونے لگی تھی۔ملگجے کپڑوں کو دیکھ کر وہ آہ بھر کے رہ گئی۔

جب کبھی وہ منّی کو دیکھتی ، تواسے یاد آتا کہ اس کا وجود کتنا کم زور ہے۔رسوئی کے کاموں سے فرصت ملے، تو وہ اس کلی پہ کچھ دھیان دے۔ اب اس کی ساس نے اپنی توپوں کا رُخ اُس کی طرف موڑ لیا تھا ’’تجھ سے ابھی تک رسوئی کا کام نہ ہوا؟ یہ جو پورا گھر گندا ہوا پڑا ہے، یہ کب صاف ہو گا…؟‘‘ مہرین نے کانچ اٹھاتے ہوئے کہنا چاہا۔ ’’ماں جی، لکڑیاں گیلی ہیں آگ جلنے میں مشکل…‘‘اس سے پہلے کے وہ جملہ مکمل کرتی ، ساس چلّائی ’’بس ، بس رہن دے بی بی۔

بہانوں کی بھی لمبی فہرست ہوتی ہے ، تیرے پاس۔‘‘ اور ساتھ ہی حقارت سے نظریں پھیرلیں، مگر بڑبڑانا جاری رکھا’’میرے تو بیٹے کے مقدّر ہی ٹھنڈے تھے،جو اسے تجھ جیسی بیوی ملی۔ ایک تو تین سال بعد بچّہ پیدا کیا، وہ بھی لڑکی اور اتنی کمزور کہ اسپتالوں کے چکر کاٹ کاٹ کر ہی میرا بیٹا کنگال ہونے کو ہے۔‘‘اس نے ساس کی طرف دیکھنا چاہا کہ آنکھوں میں آنے والے نمکین پانی سے سارا منظر دھندلاگیا۔ 

پھر چُپ چاپ منّی کو اُٹھایا اور کمرے کی طرف چل دی۔ وہ جانتی تھی، ساس سے کچھ بھی کہنا سُننا فضول ہے۔ وہ کمرے میں آئی تو دیکھا سارا کمراالٹا پڑا تھا۔رسوئی کے کام ختم ہوں تو کچھ اورکرے ناں۔ منّی کو پلنگ پہ بٹھا کر پلٹی ،تو سنگھار میز کے آئینے میں اپنا عکس نظر آیا۔ اس کا رنگ بھی آنگن میں پڑے پتّوں جیسا ہو رہا تھا۔ ہاں آنگن میں پڑےزرد پتّوں اور سامنے نظر آتے زرد وجود میں ایک فرق ضرور تھا، وہ یہ کہ پتّے آزاد تھے ،لیکن وہ اب بھی فرائض کی دلدل میں دھنسی ہوئی تھی۔

آئینے میں خود کو دیکھتے ہوئے وہ یہی سوچ رہی تھی کہ شادی سے پہلے تو ساس اس کےحُسن کا دَم بھرتے اور کاموں کی تعریف کرتے نہیں تھکتی تھی، تو اب ایسا کیا ہو گیا کہ وہ منحوس ہو گئی…؟؟پھر خود ہی سر جھٹک کر اپنے بکھرے بالوں کو جوڑے میں لپیٹا اور آئینے کے سامنےسے ہٹ گئی کہ اپنے زوال کا سانحہ دیکھنے کی ہمّت اس میں باقی نہ رہی تھی۔

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کے قلم کار برائے صفحہ ’’کچھ توجّہ ادھر بھی‘‘

٭تعلیم یا کاروبار، طلعت نادر، سعود آباد، ملیر، کراچی٭اہم دوا مارکیٹ سے غائب، اطہر علی بیگ، ماڈل کالونی، کراچی٭شدید مسائل کا شکار اورنگی ٹاؤن کے تعلیم پسند عوام، ہاجرہ منصور، نارتھ ناظم آباد ، کراچی ٭منہگائی، بجٹ اور عوام،پانی، شری مُرلی چند گوپی چند گھوکلیہ، شکار پور ٭پرائز بانڈ پر ٹیکس کم کیا جائے، ولی احمد شاد، کراچی ٭موضوع نہیں لکھا، راشدہ صدّیق عبّاسی، چاہ سلطان، راول پنڈی ٭پڑوسیوں کے حقوق، کمال وارثی، کراچی ٭وَراثتی نا انصافی، عصمت عبّاسی، راول پنڈی ٭’’کے الیکٹرک‘‘ کی لوڈشیڈنگ کے یہ متاثرین،دودھ دہی کی قیمتوں میں اضافہ، کرایوں میں اضافہ،گلزارِ ہجری میں پانی کی قلّت،سہراب گوٹھ برج کی قابلِ رحم صورتِ حال، عمران خان آپ کے ہاتھوں غریب خوش حال ہونا چاہیے،پانی اور سیوریج کا نظام،پاکستان منہگائی کے سفر پر،اب ہم کشمیر خود ہی چھین لیں گے،کشمیر پاکستان بن چُکا،کراچی کے قابلِ توجّہ ترقّیاتی کام، پاکستان زندہ باد ہی رہے گا، صغیر علی صدّیقی، کراچی ٭ان کے لیے احتجاج کون کرے؟ ،کنول نوید ،مقام نہیں لکھا٭چیف جسٹس سپریم کورٹ سلام تم پر، مسکان پاڑہ میںگیس لائن بچھائیں، محمّد اقبال خان سُلیمانی، کراچی ٭حدود آرڈینینس اور پولیس اہل کاروں کی من مانی، محمّد عرفان ، لاہور ٭میری الم ناک داستان، سہیل سبّاس، لاہور٭ماحولیاتی آلودگی اور عوامی مقامات پر بے پروائی سے گاڑی چلانا، عبد الجبّار خان، کراچی ٭اسلام میں گداگری حرام ہے، نام و مقام نہیں لکھا٭رمضان ٹرانسمیشن،ایک قابلِ توجّہ پہلو،چاند دیکھنے کا تنازع اور حکومتی وزیر کی تجویز،محمد ریاض علیمی، نیو کراچی ٭صحافی کا دُکھ کون سمجھے گا؟،خطیب احمد، مقام نہیں لکھا۔

تازہ ترین