• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاگتے رہو جاگتے رہو…ثالثی ایک جال

تحریر:عظمیٰ گل دختر جنرل (ر) حمید گل
بچپن میں اپنے دادا کے گھر سرگودھا جایا کرتی تو رات گلی کے چوکیدار کی لاٹھی کی ٹک ٹک اور ’’جاگتے رہو جاگتے رہو‘‘ کی آواز سنائی دیا کرتی جس سے نیند سے بیدار ہونے پر والد صاحب نے بتایا کہ چوکیدار محلے والوں کو ممکنہ چور کے خلاف متنبہ کرتا ہے اور چور کو اپنی موجودگی اور اپنے چوکنہ ہونے کا احساس دلاتا ہے تاکہ وہ چوری کے ارادہ سے باز رہے۔ہماری حکومتوں کی کمزوری کی وجہ سے کشمیر پالیسی عرصہ دراز سے گرداب میں رہی ہے۔ موت وحیات کے اس مسئلہ کو ثانوی حیثیت دے کر سردخانے میں ڈال دیا گیا تھا۔ بنیادی وجہ ہمارے حکمرانوں میں جرأت اور وژن کا فقدان اور اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دینا ہے۔ نواز شریف کے ادوار میں کشمیر سے متعلق بڑی کمزور پالیسیاں وضع کی گئیں اور ہم صرف ہندوستان دوستی پالیسی پر گامزن رہے۔ یہاں تک کہ بات کچھ لو اور کچھ دو تک آپہنچی۔ بے نظیر نے تو راجیو گاندھی کی اسلام آباد آمد پر کشمیر کے بورڈ تک اتروا دیئے تھے اور جنرل پرویز مشرف نے تو کشمیر کی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جس کا خمیازہ کشمیری آج تک بھگت رہے ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بالائے طاق رکھ کر Out of the box solution نکالنے کی کوشش کی۔ پہلے وہ امریکہ کے سامنے سرنگوں ہوئے اور اس کے بعد بھارت کے سامنے باقاعدہ سرجھکا دیا۔ بھارت کو گارنٹی دے دی کہ لائن آف کنٹرول سے جہادیوں کی نقل وحرکت ختم کر دیں گے یعنی کشمیریوں کو اپنے ہی وطن میں ایک حصے سے دوسرے حصے میں جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ کیسی ستم ظریفی کہ دیوار برلن پار کرنے والے ہیرو قرار پائے لیکن لائن آف کنٹرول کراس کرنے والے دہشت گرد۔ جنرل مشرف نے بھارت کو اجازت دے دی کہ لائن آف کنٹرول پر باڑ لگا کر کشمیر اور کشمیریوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پس پشت ڈال کر اور اپنے دیرینہ اصولی موقف سے پیچھے ہٹ کر سمجھوتے پر بھی آمادگی ظاہر کر دی۔ اس پس منظر میں اور پاکستان کی سالہا سال سے کمزور کشمیر پالیسی میں وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ امریکہ جولائی 2019 میں صدر ٹرمپ کا اچانک کشمیر کے معاملے میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی پیشکش اور جوش و خروش ایک حیران کن بات تھی۔ پوری قوم نے خوشی کے شادیانے بجائے جیسے کہ کشمیر آزاد ہوگیا۔ اس کے ثمرات تو چند ہی دن بعد 5 اگست 2019 کو سامنے آگئے جب بھارت نے کشمیر کا سٹیٹس بدل کر اس پر کرفیو لگا دیا اور کشمیریوں پر ظلم وتشدد کی یلغار کر دی۔ پاکستان بھر میں قیاس آرائیاں ہونے لگیں اور بہت سے ٹی وی چینلوں پر سوال اٹھنے لگے کہ کیا عمران خان بھی کشمیر پر امریکہ کے ساتھ معاملہ کرکے آگئے ہیں؟ مظفرآباد میں وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کے اجلاس میں کشمیر کے لئے وہ سٹینڈ لیں گے جو آج تک کسی نے نہ لیا۔ انہوں نے اپنے سٹینڈ کی کوئی تفصیل نہ بتائی۔ کیا یہ ضروری نہ ہے کہ وہ پہلے پاکستانی اور کشمیری عوام کو اعتماد میں لیں؟ عین ممکن ہے کہ یہ سٹینڈ اسی طرح پاکستانی اور کشمیری عوام کو قابل قبول نہ ہو، جس طرح دو سال کی محنت کے بعد برطانوی وزیراعظم ٹریسامے کی بریکسٹ پالیسی برطانوی قوم نے مسترد کردی، نتیجتاً وزیراعظم ٹریسامے کو وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے، پارٹی کے اندر رسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور قوم کی طرف سے برطانیہ کے مفادات کا سودا کرنے کا الزام بھی سہنا پڑا۔ جس کی وجہ سے آج برطانیہ شدید اضطراب سے گزررہا ہے۔مسلمان ہمیشہ سے سازشوں کا شکار رہے ہیں اور ہماری عوام Conspiracy theory (سازشی تھیوری) میں یقین رکھنے میں حق بجانب ہے۔ امریکہ ہمیں ایک بار پھر ثالثی کے خوش نما جال میں الجھانے کی کوشش کررہا ہے۔ پاکستان کی حکومت اور دانشور کوئی بھی اس مسئلے پر یکسو نظر نہیں آتا۔ اسی میں مجھے خطرہ پنہاں نظر آتا ہے۔ ثالثی نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو مزید پیچیدہ کیا ہے۔ یاد رہے جب بھی کبھی ثالثی کےذریعے کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی بات کی جائے گی تو اس میں تقسیم کشمیر کی سازش پنہاں ہوگی۔1948 میں کشمیر پر ثالثی ہوئی۔ ہمارے مجاہدین جو سرینگر کے دروازے پر دستک دے رہے تھے ان کے بڑھتے قدم روک دیئے گئے۔ آج تک ہم اس ثالثی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ کاش ہم اس ثالثی کے اس دام فریب میں نہ آئے ہوتے؟1962 میں جب ہندوستان چین کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہورہا تھا تو پاکستان سے ممکنہ حملے سے بچائو کی خاطر نہرو کی ایما پر امریکہ نے مداخلت کی اور مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعے حل کرانے کی ذمہ داری اٹھائی، کیا ہوا.... سردار سورن سنگھ اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان مذاکرات کے چھ دور ہوئے مگر نتیجہ صفر نکلا۔ ہم نے ہمیشہ جیتی ہوئی بازی ثالثی کی میز پرہاری ہے۔ ہماری بہت سی کامیابیوں کو ثالثی کی آڑ میں سازش سے ناکامی میں تبدیل کر دیا گیا۔تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کے معاملے میں اسلام دشمن طاقتیں کبھی منصف ثالث ثابت نہیں ہوئیں اور نہ ہی اقوام متحدہ نے اس میں انصاف پر مبنی کوئی کردار ادا کیا ہے اور نہ ہی کرے گی۔مذاکرات کے جھانسے اور پابندیوں کے خوف میں ہم نے خود ہی جہاد روک دیا اور اپنی جہادی تنظیموں پر پابندی لگا کر اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی ماری حالانکہ وہ ہمارا ہر اول دستہ تھیں۔ ہمیں تو ان کی پشت پناہی کرنا چاہئے تھی۔ ہم نے آزادکشمیر جہاں سے حاصل کیا تھا اور اس میں کوئی شبہ اور دو رائے نہیں کہ ہمیں مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے بھی جہاد ہی کرنا پڑیگا۔ آج قوم جہاد کیلئے بے تاب ہے مگر ہماری حکومت اس سے کترارہی ہے۔ جنگ تو ہندوستان نے 5 اگست سے ہی شروع کردی ہے۔ معلوم نہیں ہمیں اور کس بات کا انتظار ہے؟ کہتے ہیں کہ جنگ ہو جائے گی۔۔۔ تو ہو جائے۔ جنگیں تو ہوا کرتی ہیں۔ ہمیں کشمیر کی آزادی کیلئے ہندوستان اور اقوام عالم کو عملاً یہ باور کرانا ہوگا کہ ہم کشمیر کے لئے انتہائی اقدام اٹھانے کیلئے تیار ہیں۔ ہمیں اس کا واشگاف انداز میں اعلان کر دینا چاہیے کہ اگر ہمیں کشمیر پرایٹمی جنگ بھی لڑنا پڑے تو ہم اس سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ہمیں کشمیر کو اتنی اہمیت دینی جائے جتنی جسم کے لئے شہ رگ کی ہوتی ہے۔ جسم کے دوسرے اعضاء کے بغیر جینے کا تصور کیا جاسکتا ہے لیکن شہ رگ کے بغیر نہیں۔ مشرقی پاکستان کی شکل میں ہمارا باز وکٹ گیا مگر ہم زندہ رہ گئے لیکن شہ رگ کٹنے سے ہم زندہ نہیں رہیں گے۔ پہلے ہی اس معاملے میں بہت دیر ہو چکی ہے۔ ہم خدا کے بتائے ہوئے طریقہ پر کیوں نہیں چلتے اور کیوں نہیں جہاد کا نعرہ بلند کرتے۔ اللہ سبحان و تعالی فرماتا ہے۔ اے جہاد سے ڈرنے والو تم کہیں رہو موت تو تمہیں آکر ہی رہے گی۔ خواہ بڑے بڑے محلوں میں رہو۔ جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا:دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دےوہ بجلی کہ تھی نعرہ لاتذر میںعزائم کو سینوں میں بیدار کر دےنگاہ مسلماں کو تلوار کر دے!ریٹار منٹ کے بعد میرے والد جنرل حمید گل نے قوم اور ملت کو متنبہ کرنے کے لئے ایک نظریاتی چوکیدار کا کردار ادا کیا۔ وہ پاکستان دشمن قوتوں، پالیسیوں اور سازشوں سے قوم اور حکومتِ وقت کو آگاہ کرتے رہے۔ خواہ وہ کشمیر پالیسی ہو، افغان جہاد ،CTBT یا دیگر ملکی مسائل۔ وہ قوم کی نظریاتی سرحدوں کے بھی محافظ تھے اور کسی بھی ممکنہ نظریاتی حملہ سے بر وقت آگاہ کرتے رہے۔ ان کے ٹی وی و اخبارات کے انٹر ویو، کالم اور تقاریر اس بات کی گواہ ہیں۔ وہ اپنی قوم کو کہتے رہے…جاگتے رہو جاگتے رہو۔ آج وہ ہم میں نہیں مگر ان کا مشن لے کر چلتے ہوئے اب مجھے یہ کہنا ہے … جاگتے رہو جاگتے رہو۔
تازہ ترین