• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عروسہ شہوار رفیع

’’باہر شدید گرمی، حبس، لُو اور آگ اُگلتا سورج ہے، ائیرکنڈیشنڈ کمرے سے منہ نکالنے کو جی نہیں چاہ رہا، کُجا بازاروں کے چکر…نہ بابا نہ ہم نہیں کر سکتے یہ کام۔ باہر تو وہی جاسکتا ہے، جس میں اتنی گرمی برداشت کرنے کا حوصلہ ہو۔‘‘ اب اگرجوانوں کا یہ حال ہے، تو پھرظاہر سی بات ہے کہ جھلسا دینے والی گرمی میں گھر کے بڑے، بزرگ ہی سودا سلف لینے جائیں گے۔ ایک وقت تھا، والدین میں برداشت کا جذبہ جس قدرپایا جاتا،وہ اپنی اولاد میں اُس سے کئی گنا زیادہ منتقل کرتے۔ 

اولاد کی بہتر تربیت کے لیےانہیں قدم قدم پہ سمجھایا جاتا، باتوں ہی باتوں میں عقل و دانش کے کئی گُر سکھا دیئے جاتے۔ دِن میں سو سو بار نصیحتیں بھی کی جاتیں۔ اور تب بڑوں کی باتیں بچّے بہت تحمّل سے سُن بھی لیا کرتے تھے۔ تب والدین ہی کیا، پورا معاشرہ ہی سادہ، ہر عمل میں خالص ہوتا تھا۔

جب گرمی کا موسم آتا، تو سورج ڈھلتے ہی نانی، دادی صحن میں چارپائیاں بچھانے کو کہتیں۔اگر صحن پکّی اینٹوں کا ہوتا، تو پہلےاسے دھوتے، ورنہ پانی کا چھڑکائو کردیا جاتا۔ پھر سلیقے سے چارپائیوں پہ سفید چاندنیاں بچھا کر تکیے رکھے جاتے۔

نانا، دادا کے لیے حقّے میں تازہ چِلم بَھری جاتی۔ صحن میں حبس بڑھتا، تو چارپائیاں چھتوں پر لے جاتے۔ مچھروں سے بچنے کے لیے باقاعدہ مچھر دانیوں کا اہتمام ہوتا۔گھر سے باہر نکلتے وقت عموماً بزرگ خواتین بچّوں، بڑوں کو سَر پر ’’پرنا‘‘ رکھنے کی خاص تاکید کرتیں۔ 

پرندوں کے لیے خاص برتن خریدے جاتے، تاکہ ان کے لیے دانے پانی کا بہتر انتظام ہوسکے۔ ٹھنڈے مشروبات کے ساتھ کچّی لسّی بطورِخاص بنائی جاتی۔ بلکہ بعض گھرانوں میں توگھڑونچی پر دھری صراحی ہی میں دودھ، برف اور پانی ڈال دیا جاتا اور بار بار پانی پینے کی بجائے یہی کچّی لسّی پی جاتی۔

عموماً گھر کے مَرد جب شدید گرمی میں باہر سے آتے، تو موتیے کے پھولوں کے تازہ ہارضرور ساتھ لاتے اور جوں ہی وہ یہ ہارصراحی کی گردن کے گرد لپیٹتے،تو ان کی بھینی بھینی خوشبو چاروں جانب پھیل جاتی۔ ہوا کے جھونکوں میں رَچی یہ خوشبو نہ صرف سرور بخش ہوتی، بلکہ اس سے گرمی کا احساس بھی قدرے کم ہوجاتا۔ 

اُس سُنہری دَور میں گھروں کی چھتیں ساتھ ساتھ ہونے کی وجہ سے سب ایک دوسرے سے خُوب گپ شپ لگاتے۔ کھانوں کا تبادلہ بھی خوشی خوشی کیا جاتا۔ برسات کے موسم میں مَرد، خواتین سے فرمایشیں کرکے میٹھے، نمکین پکوان بنواتے۔ اس موسم میں گوشت کم پکتا اور سبزی زیادہ رغبت سے کھائی جاتی، جس کے ساتھ پودینے، انار دانے، ہری مرچ، ٹماٹر اور پیاز کی مکس چٹنی لازماً تیار کی جاتی۔ 

تندوری گرما گرم روٹی پر مکّھن یا دیسی گھی چپیڑ کر اچار سے کھاتے۔ اور اُس وقت اُس کھانے کا جو ذائقہ، لُطف اور خوشبو ہوتی، وہ آج ڈھونڈے سے بھی نہیں مل سکتی۔ تب محلّے کے دو چار گھروں میں تندور ہوتے، جہاں خاصا رش رہتا اور ایک دوسری کی باری آنے تک خواتین آپس میں دُکھ سُکھ بانٹ لیا کرتیں۔ اسی طرح گھروں میں نل، نلکے ہونے کے باوجود سب پانی مسجد کے بڑے کنویں ہی سے بَھرتے اور وہاں بھی باری سسٹم ہوتا۔ لوگ حوصلے سے اپنی اپنی باری کا انتظار کیا کرتے۔

آہ! کیا وقت تھا، جب رات گئے بچّےکسی ڈر وخوف کے بغیر گلیوں میں چُھپن چھپائی، لنگڑی پالا کھیلا کرتے۔ کھیلتے کھیلتےاگر کھانے کا وقت ہوجاتا اور کوئی ایک ماں اپنے بچّے کو کھانےکے لیے آواز دے دیتی، تو وہ سب دوستوں کو کھانے کی دعوت دے ڈالتا۔ تب مائیں بھی اپنے، پرائے بچّے میں فرق نہیں کرتی تھیں۔ اپنے لال کے ساتھ دوسرے بچّے کو بھی خوشی خوشی کھانا کھلاتیں۔ کوئی گریز، غیریت نہ تھی، تھی تو بس اپنائیت۔ 

اسی طرح اگر کوئی پریشانی، غمی یا خوشی کا موقع ہوتا، سب سے پہلے ہمسائے، محلّے دار پہنچتے۔ اور دوسرے کی پریشانی یا غم کو اپنا ہی غم سمجھا جاتا۔ سب کے دُکھ سُکھ سانجھے تھے۔ مشترکہ خاندانی نظام رائج تھا، تو چھوٹوں بڑوں کا لحاظ بھی ملحوظِ خاطر رہتا۔ 

کیا چچا، ماموں، خالہ ،پھپھو سب کے بچّےمل جُل کر آپس میں اتفاق و پیار سے رہتے اور ہمیشہ اپنے سے بڑی باجی، آپی، بھائی، بھیّا کا کہا مانا جاتا۔ یہاں تک کہ کسی غلطی پہ خوشی خوشی مار بھی سہہ لی جاتی۔ بڑے بڑے کنبے ساتھ رہتے، لیکن کوئی بڑا جھگڑا ہوتا، نہ فساد۔

اور…اب بُلند و بالا عمارتیں ہیں، تو ان کے اندر رہنے والوں کی ناکیں عمارتوں سے بھی کہیں اونچی۔ جیٹھانی اپنے بچّے کو کچھ بنا کر پیار سے کِھلا رہی ہے اور دیورانی کا بچّہ بھولے بھٹکے کمرے میں آگیا،تو فوراً اس کا بازو کرپکڑ کرباہر کردیا۔آہ…کتنا فرق آگیا ہے، وقت میں بھی اور رویّوں میں بھی۔ دِلوں میں پیارو محبّت اور خلوص کی جگہ بے حِسی، نفرت، مکّاری و عیاری نے لے لی ہے۔ اب نہ وہ گلی چوبارے، سڑکیں محلّے رہے، نہ ملنے جلنے کے ادب آداب ۔ 

یہ سچ ہے کہ وقت پلٹ کر نہیں آسکتا، لیکن موجودہ مشینی دَور میں ہم اپنے بڑے بوڑھوں کی محبّت، خلوص سے گندھی ریت روایات کو اپنے اپنے طور پر زندہ رکھنے کی کچھ کوشش تو ضرور کرسکتے ہیں،تاکہ کم از کم رشتوں کی مالا تو ٹوٹنے نہ پائے اور آپس کی محبّت برقرار رہے۔

تازہ ترین