• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’گٹھیا‘ ابتدائی علامات کسی عُمر میں بھی نظر انداز نہ کریں

آرتھرائٹس اینڈ رہیومیٹیزم انٹرنیشنل(Arthritis and Rheumatism International) آرگنائزیشن کے زیرِاہتمام ہر سال12 اکتوبر کو’’ آرتھرائٹس کا عالمی یوم‘‘منایا جاتاہے۔ امسال کا تھیمDon’t Delay Connect"ـ"مقرر کیا گیا کہ عموماً مرض کے متعلق معلومات نہ ہونے کے باعث جوڑوں کے درد اور سوزش کو کام کی زیادتی کا سبب سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیا جاتا ہے،نتیجتاً مرض کی شدّت بڑھ جاتی ہے۔ آرتھرائٹس (گٹھیا) ایک ایسا مرض ہے، جس کے پھیلاؤ کی شرح ترقّی پذیر اور ترقّی یافتہ دونوں ہی مُمالک میں تقریباً یک ساں ہے۔

کچھ برس قبل تک خیال کیا جاتا تھاکہ یہ مرض50سال یا اس سے زائد عُمر کے افراد کو متاثر کرتا ہے، لیکن اب نوجوانوں اور بچّوں میں بھی مرض کی تشخیص ہورہی ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ہمارے یہاں گٹھیا سے متاثرہ نوجوان مریضوں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ کروڑ تک جا پہنچی ہے،جب کہ 50 لاکھ بچّے بھی اس عارضے کا شکار ہیں۔دراصل ہمارے یہاں مُلک میں زیادہ تر مریض اُس وقت معالج سےرابطہ کرتے ہیں، جب کوئی مرض خطرناک مرحلے میں داخل ہوجاتا ہو اور تب علاج بھی خاصا مشکل امر بن جاتا ہے۔

گٹھیا، جسے جوڑوں کا درد،جوڑوں کی سوزش یا ہڈیوں کی آتش زنی بھی کہا جاتا ہے، ہمارے مُلک میں معّمر افراد میں بہت عام ہے اور اکثریت اس کی ابتدائی علامات کو عُمر کا تقاضا سمجھ کر نظرانداز کرتی رہتی ہے،یہاں تک کہ چال ڈھال میں ٹیڑھا پن نمایاں ہوجاتا ہے۔

اس مرض میں ہڈیوں کےجوڑوں پر سوزش یا ورم آجاتا ہےنتیجتاً جوڑوں کو حرکت دینے میں شدید قسم کادرد ہوتا ہے۔ عموماً فربہی مائل افراد جلد آرتھرائٹس کا شکار ہوجاتے ہیں۔یوں توگٹھیا کی کئی اقسام ہیں، مگرآسٹیو آرتھرائٹس(Osteo Arthritis) اور رہیوماٹئڈ آرتھرائٹس(Rheumatoid Arthritis)زیادہ عام ہیں۔ 

آسٹیو آرتھرائٹس کی ابتدائی علامات میں تھکاوٹ ، جوڑوں میں درد، سوزش، گھٹنے متوّرم ہونا، جوڑوں پر سُرخی آجانا، ہڈی کا جوڑوں سے سرک جانا، جوڑوں کی سختی اور جوڑوں کے ہلنے جلنے میں رکاوٹ شامل ہیں۔ یہ عموماً 60سال سے زائد عُمرکے 10فی صد افراد کو اپنا شکار بناتا ہے ،جب کہ40سال سے زائد عُمر کے فربہی مائل افرادمیں بھی اس کی شرح بُلندہے۔ 

حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ذہنی دبائو بھی جوڑوں کے درد کی وجہ بن سکتا ہے۔ آسٹیو آرتھرائٹس سے متاثرہ مریضوں کی ہڈیوں کے سِرے گِھس جانے کے باعث رگڑ کھاتے ہیں،نتیجتاً اُٹھتے بیٹھتے اور چلتے ہوئے درد کی شدید لہر اُٹھتی ہے۔بعض اوقات جوڑ چُھونے اور دبانے سے بھی شدید تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ اگرا بتدائی مرحلے میں مرض تشخیص نہ ہو،تو جوڑ ناقابلِ حرکت ہو جاتے ہیں۔

آسٹیو آرتھرائٹس کا تاحال کوئی حتمی علاج دریافت نہیں ہوسکا،البتہ درد کُش ادویہ، ورزش، مالش، آکوپنکچر اور فزیو تھراپی وغیرہ درد کی شدّت کم کرنے اور جوڑوں کی حرکت بحال رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں، لیکن جب کسی بھی طرح کے علاج سے افاقہ نہ ہو، تو پھر متاثرہ جوڑ بذریعہ آپریشن تبدیل کردیا جاتا ہے۔ ترقّی یافتہ مُمالک میں آسٹیو آرتھرائٹس کے لیے جدید طریقۂ علاج’’اسٹیم سیل تھراپی‘‘اپنایا جارہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اسٹیم سیل ٹیکنالوجی پٹّھوں اور جوڑوں کے امراض کا علاج نہیں۔ 

گھٹنے کے شدید درد کی صُورت میں اگر معالج خود تجویز کرے، تو گھٹنے کے جوڑ کو تبدیل کروایا جاسکتا ہے،بصورتِ دیگر نہیں۔علاوہ ازیں، کینیڈا کے طبّی ماہرین نے’’بون میرو امپلانٹ‘‘کو بھی اس مرض کا کام یاب طریقۂ علاج قرار دیا ہے۔چوں کہ یہ ایک انتہائی منہگا علاج ہے، تو ہمارے مُلک میں ابھی اسے متعارف ہونےمیں کچھ وقت لگے گا۔ 

جوڑوں کے درد کے شکار مریضوں کے لیے روزانہ 20سے40منٹ تک واک فائدہ مند ثابت ہوتی ہے،کیوں کہ واک کے نتیجے میں وزن میں کمی کے سبب جب جوڑوں پر دباؤ کم پڑتا ہے، تو مرض کی شدّت میں بتدریج کمی آتی چلی جاتی ہے، بلکہ بعض اوقات توگھٹنے کے جوڑوں کے درد کی شکایت ہی دور ہو جاتی ہے۔ 

بعض مریض خاص طور پر معّمر افرادکے لیے زیادہ واک بھی نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتی ہے،کیوں کہ زیادہ چہل قدمی سے بھی گھٹنے کی نرم ہڈی آپس میں رگڑ کھاتی ہے،جس کے نتیجے میں جوڑ وں کو نقصان پہنچ سکتا ہے،لہٰذا بہتر یہی ہے کہ معالج کے مشورے سے واک اور اس کا دورانیہ تجویز کروالیا جائے۔

رہیوماٹئڈ آرتھرائٹس میں مدافعتی نظام ہڈیوں کے صحت مند جوڑوں کے ٹشوزپر حملہ آور ہوجاتا ہے ۔یہ عارضہ خاص طور پر ہاتھوں کی انگلیوں کے جوڑمتاثر کرتا ہے، جس کے سبب وہ ٹیڑھی میڑھی اور بدوضع ہوجاتی ہیں،یہاں تک کہ روزمرّہ امور انجام دینا دشوار ہوجاتا ہے۔

اس عارضے کے شکار زیادہ تر فربہی مائل افراد ہوتے ہیں، جب کہ مَردوں کی نسبت75سال سے زائد عُمر کی خواتین میںاس کی شرح بُلند ہے۔دبائو کے شکاربشمول 10فی صد معّمر افراد کی ہڈیوں کے جوڑ عام طور پر نرم ہوجاتے ہیں، اگر اس علامت کو فوری طور پر کنٹرول نہ کیا جائے، تو ہڈیوں کے بُھربُھرے پن کا عارضہ، آسٹیوپوروسس بھی لاحق ہوسکتا ہے۔

رہیوماٹئڈ آرتھرائٹس کی اگر ابتدائی مرحلے ہی میں تشخیص ہو جائے، تو اس پہ بہتر طور پر قابو پایا جا سکتا ہے۔بصورتِ دیگر عُمر بَھر کی معذوری کا روگ لگ جاتا ہے۔ علاج کے ضمن میں دافع دردادویہ تجویز کی جاتی ہیں،جب کہ مخصوص جسمانی ورزشیں،بالخصوص یوگا بھی خاصا فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ 

اگر ابتدا ہی سے وزن پر کنٹرول رکھا جائے، باقاعدگی سے ورزش کے ساتھ متوازن غذا، دودھ، پھل اور سبزیوں کا استعمال ہو،تو اس مرض کے امکانات کم سے کم ہو جاتے ہیں،بلکہ ہڈیوں کےکئی اور عوارض سےبھی محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

( مضمون نگار، انکل سریا اسپتال،کراچی سے منسلک ہیں، جب کہ سول اسپتال کے آرتھوپیڈک یونٹ سے بطور پروفیسروابستہ رہ چُکےہیں)

تازہ ترین