شو بزنس کی رنگ و نور کی دُنیا میں بہت کم فن کار ایسے سامنے آئے ہیں، جنہوں نے فنون کی مختلف اصناف میں کام یابی حاصل کی اور خود کو منوایا اور اَدب و ثقافت میں یکساں مقبولیت حاصل کی ہو۔ جی ہاں قارئین ہم بات کر رہے ہیں، اطہر شاہ خان جیدی کی، وہ ہمہ جہت اور ہمہ صفت فن کار کی حیثیت سے سامنے آئے۔
انہوں نے ساری زندگی قلم سے رشتہ قائم رکھا ہے، ایسی بہت کم شخصیت سامنے آئی ہے، جس نے ڈراما نگاری، کردار نگاری اور شاعری میں منفرد شناخت بنائی ہوئی ہو۔
اطہر شاہ خان جیدی نے جب ڈرامے لکھنے شروع کیے، تو اسکرپٹس کے ڈھیر لگا دیئے اور جب مزاحیہ اور سنجیدہ شاعری کا آغاز کیا تو مشاعرے لوٹنے لگے، پرفارمنگ آرٹ کی بات کی جائے تو انہوں نے فن کی دُنیا میں ’جیدی‘ کا ایسا ناقابل فراموش کردار لکھا اور اُسے ٹی وی اسکرین پر بھی خود پرفارم کر کے اَمر کر دیا۔
ایسا کم دیکھنے میں آیا ہے کہ کوئی فن کار ایسا کردار ادا کرے کہ وہ اس کے نام کا حصہ بن جائے، اطہر شاہ خان نے تھیٹر، ریڈیو، ٹیلی ویژن اورفلموں کے لیے خُوب لکھا اور ساتھ ساتھ اداکاری کے جوہر بھی دکھائے، بنیادی طور پر وہ ایک زرخیز تخلیق کار ثابت ہوئے ہیں، انہوں نے اپنے تعلیمی مراحل مختلف شہروں میں مکمل کیے۔
لاہور سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پشاور سے سیکنڈری تک پڑھا اور پھر کراچی میں اُردو سائنس کالج سے گریجویشن کیا، بعدازاں انہوں نے پنجاب یونی ورسٹی سے صحافت کے شعبے میں ماسٹرز کیا، ان کا شمار ٹیلی ویژن کے ابتدائی ڈراما نگاروں اور فن کاروں میں کیا جاتا ہے۔
ان کی سپرہٹ ڈراما سیریلز میں انتظار فرمائیے، ہیلو ہیلو، جانے دو، برگر فیملی، آشیانہ، آپ جناب، جیدی اِن ٹربل، پرابلم ہائوس، ہائے جیدی، کیسے کیسے خواب، بااَدب باملاحظہ ہوشیار اور دیگر ڈرامے شامل ہیں۔
انتظار فرمائیے، وہ سیریل تھی، جس نے اطہر شاہ خان کو ’جیدی‘ بنا کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا، انہوں نے درجنوں فلمیں بھی لکھی ہیں، ان کی لکھی ہوئی پہلی فلم ’بازی‘ نے باکس آفس پر گولڈن جوبلی منائی۔
2001ء میں انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا، پاکستان ٹیلی ویژن نے جب اپنی سلور جوبلی منائی تو اطہر شاہ خان جیدی کو گولڈ میڈل عطا کیا۔
گزشتہ چند برسوں سے وہ علالت کے باعث مشاعروں اور ڈراموں میں حصہ نہیں لے رہے ہیں، ہم نے ان کی فیملی سے انٹرویو کے لیےرابطہ کیا اور طے شدہ وقت پر ان کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔
جیسے ہی اطہر شاہ خان ہمارے سامنے آئے، وہ صحت مند اور توانا نظر آ رہے تھے، ہم نے سلام دُعا کے بعد اپنی بات چیت کا آغاز کیا، جس کی تفصیل نذرِ قارئین ہے۔
سوال: آپ کے مداح آپ کو تلاش کر رہے ہیں، آپ اپنے چاہنے والوں سے ناراض ہوگئے ہیں کیا؟
اطہرشاہ خان: ارے نہیں میاں… میں نے زندگی میں صرف ایک اچھا کام کیا کہ کسی کا دِل نہیں توڑا، کسی کو ناراض نہیں کیا، میں نے ہمیشہ خوشیاں تقسیم کی ہیں، خود بھی خوش رہتا ہوں، ٹیلی ویژن اور مشاعروں سے تھوڑا سا دُور ہوگیا ہوں، لیکن جلد میرے چاہنے والے مجھے ادبی محافل اور ٹی وی اسکرین پر دیکھیں گے۔
سوال: شاعر، ادیب، فن کار اور ثقافتی ادارے آپ سے رابطے میں ہیں؟
اطہرشاہ خان: چند قریبی شعراء ملنے آ جاتے ہیں۔ فن کاروں نے تو مجھ سے ملنا چھوڑ دیا ہے، گزشتہ دِنوں عابد علی کے انتقال کی خبر ملی تو بہت ملال ہوا، رہی بات ثقافتی اداروں کی، وہ گزشتہ دس برسوں سے رابطہ میں نہیں ہیں۔
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی انتظامیہ نے تو مجھے بُھلا دیا ہے، رہی حکومت کی بات تو ان کا ویسے بھی بُرا حال ہے، ان کو فن کاروں سے کیا دل چسپی ہوسکتی ہے۔
سوال: جیدی کے کردار کی غیر معمولی مقبولیت کی وجہ کیا تھی؟
اطہرشاہ خان: یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب میں نے پاکستان ٹیلی ویژن کراچی سینٹر کے لیے اپنی پہلی ڈراما سیریل ’انتظار فرمائیے‘ لکھی تھی، اس میں نہایت احمق قسم کا کردار ’جیدی‘ لکھا، کسی وجہ سے یہ سیریل شروع نہیں ہو پا رہی تھی۔
میں نے معلوم کیا تو بتایا گیا کہ ’جیدی‘ کے کردار کے لیے کسی منجھے ہوئے مزاحیہ اداکار کی تلاش جاری ہے، جیسے ہی کوئی اچھا اداکار مل جائے گا، ہم اس سیریل کی ریکارڈنگ شروع کردیں گے، بعد ازاں پی ٹی وی کراچی اسٹیشن کے منیجر نے اس وقت کے ڈائریکٹر پروگرامز اور ممتاز براڈ کاسٹر آغا ناصر کو اس سیریل کی تاخیر کی وجہ بتائی۔
آغا صاحب نے اسٹیشن منیجر کو کہا کہ اطہر شاہ خان کو اس کردار کے لیے راضی کرو کہ وہ یہ کردار خود ادا کریں، مجبوراً آغا صاحب کے کہنے پر مجھے یہ کردار ادا کرنا پڑا۔
’انتظار فرمائیے‘ کا کردار ’جیدی‘ ایسا مقبول ہوا کہ اس نے ڈرامے کے لکھاری اطہر شاہ خان کو بہت پیچھے چھوڑ دیا، آج دنیا بھر میں جیدی کے اس کردار کی وجہ سے مجھے پہچانا جاتا ہے، میں ذاتی طور پر جیدی کے بجائے سنجیدہ اور مزاحیہ شاعر اطہر شاہ خان لکھوانا زیادہ پسند کرتا ہوں۔
جیدی کی مقبولیت کی بنیادی وجہ اپنا مذاق اڑوانا تھا، آج کل کے فن کار اپنا مذاق نہیں اڑواتے، اپنا مذاق اڑوانے کے لیے بہت بڑا دل چاہیے، میں نے جیدی کے کردار میں اپنا خُوب مذاق اڑوایا، اسی لیے وہ سب کو اچھا لگا، زیادہ تر مزاحیہ فن کار دوسروں کا مذاق بنانا پسند کرتے ہیں۔
سوال: اپنے بارے میں کچھ بتائیں؟
اطہرشاہ خان: میں یکم جنوری 1943ء کو رام پور بھارت میں پیدا ہوا، چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا تو والدہ کا انتقال ہوگیا، میرے والد ریلوے میں ملازمت کرتے تھے، کچھ عرصے بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا۔
ایسے حالات میں میرے بڑے بھائی سلیم شاہ خان کو 18 برس کی عمر میں ملازمت اختیار کرنا پڑی، بعد ازاں وہ پی آئی اے میں ملازم ہوگئے، جہاں جہاں ان کا تبادلہ ہوتا تھا، ہم سب بہن بھائی ان کے ساتھ ہوتے تھے۔
بچپن سے کتابوں سے عشق تھا، تیسری جماعت میں والدہ نے ’بانگِ درا‘ انعام میں دی، میں صحافت میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ہومیو پیتھی کا سند یافتہ ڈاکٹر بھی بنا، سینٹرل ہومیوپیتھک میڈیکل کالج سے ریگولر اسٹوڈنٹ کے طور پر 4 برس تک پڑھا۔
سوال: کیا آپ کو لکھنے کا شوق بچپن سے تھا؟
اطہرشاہ خان: بچپن ہی سے لکھنے کی بیماری ہے، بچوں کے مقبول رسالوں، تعلیم و تربیت، نونہال اور بھائی جان میں کہانیاں لکھتا رہا، اسکول کے زمانے میں مختصر دورانیے کے کچھ اسٹیج ڈرامے بھی لکھے۔
سوال: اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں؟
اطہرشاہ خان: شادی کے بعد میری زندگی بدل گئی تھی، میری شادی بھابھی کی چھوٹی بہن سے ہوئی، ساری زندگی بیگم نے میرا بہت خیال رکھا، میرے 4 بیٹے ہیں، سب بہت ہی فرمانبردار ہیں۔
ایک بیٹی ہوئی تھی، صرف سات مہینے بعد اس کا انتقال ہوگیا تھا، ساری زندگی بیٹی نہ ہونے کا صدمہ رہا، پھر ہم دونوں میاں بیوی نے بہوؤں کو بیٹی سمجھ لیا۔
میری بہوئیں بھی میرا بہت خیال رکھتی ہیں، انہوں نے بیٹی کی کمی کو پورا کیا، میں نے اپنے چاروں بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا، آج وہ مختلف اداروں میں کام کر رہے ہیں، بیٹے سلمان خان، ندیم خان اور فراز شاہ مجھے بہت عزیز ہیں، اللّٰہ تعالیٰ سب کو ایسی اولاد عطا کرے۔
سوال: کسی بیٹے کو لکھنے لکھانے کا شوق ہے؟
اطہرشاہ خان: میں نے کسی بچے کو بھی اس طرف نہیں آنے دیا، ساری زندگی میں نے کوئی ملازمت نہیں کی، قلم کی کمائی سے بچوں کی تربیت کی۔
سوال: کس بڑے ادیب سے متاثر تھے؟
اطہرشاہ خان: میں لکھنے میں کسی سے متاثر نہیں ہوا، اپنے انداز سے لکھا، البتہ ابن انشاء اور شفیق الرحمٰن کو بہت پڑھا ہے۔
سوال: فن کاروں میں کس سے زیادہ مراسم رہے؟
اطہرشاہ خان: محمد علی، معین اختر، عمر شریف، رنگیلا اور قوی خان سے قریبی مراسم رہے۔
سوال: اب تک کتنے ڈرامے لکھ چکے ہیں؟
اطہرشاہ خان: میں نے ساری زندگی لکھنے لکھانے میں گزاری ہے، ریڈیو اور تھیٹر کے لیے ڈرامے لکھے، پھر ٹیلی ویژن آ گیا، اس کے لیے ان گنت سیریلز اور درجنوں فلمیں بھی لکھیں، ایک اندازے کے مطابق میں ریڈیو کے لیے 750 ڈرامے لکھ چکا ہوں، ٹی وی کے لیے 300 اسکرپٹ لکھ چکا ہوں، قلم سے سوائے ازاربند ڈالنے کے سب ہی کام کیے ہیں۔
تھیٹر کے لیے ون ایکٹ اور تھری ایکٹ سب ملا کر 22 اوریجنل ڈرامے لکھ چکا ہوں، میں نے کوشش کی کہ ہمیشہ اپنا لکھوں، کبھی انگریزی ڈراموں کا ترجمہ نہیں کیا اور نہ ہی کبھی اِدھر اُدھر سے آئیڈیاز لیے، ہمیشہ اوریجنل اور تخلیقی کام کرنے کی کوشش کی۔
سوال: آپ نے صحافت کے میدان میں بھی خود کو آزمایا تھا، اس کے بارے میں کچھ بتائیں؟
اطہرشاہ خان: جی صحیح کہہ رہے ہیں آپ، میں نے صحافت میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے، ابتدا میں روزنامہ امروز لاہور اور ممتاز کے لیے لکھتا رہا، ڈراما نگاری میں گہری دل چسپی کے باعث صحافت پر زیادہ توجہ نہ دے سکا۔
میں نے اتنے اسکرپٹ لکھے ہیں کہ اگر ترازو کی ایک جانب مجھے بٹھادیں اور دُوسری جانب میرے لکھے ہوئے اسکرپٹس رکھ دیں، مجھے یقین ہے کہ مجھ سے زیادہ اسکرپٹس کا وزن زیادہ ہوگا۔
سوال: ٹیلی ویژن پر لکھنے کا آغاز کب کیا؟
اطہرشاہ خان: یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات کا آغاز کیا تھا، 1965ء میں، میں نے ٹیلی ویژن کے ایک ایک سیریز لکھی اور وہ بہت سپرہٹ ثابت ہوئیں۔
مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ میں سب سے پہلے مزاحیہ سیریز ’لاکھوں میں تین‘ میں نے لکھی، جس کا اعتراف پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے ایم ڈی آغا ناصر نے اپنی کتاب میں بھی کیا، ’لاکھوں میں تین‘ جس کے مرکزی کرداروں میں قوی خان، علی اعجاز اور قمر چوہدری تھے۔
’لاکھوں میں تین‘ نہ صرف میری پہلی مزاحیہ سیریز تھی، بلکہ قوی خان اور علی اعجاز کی زندگی کی بھی پہلی ٹی وی سیریز تھی، لاہور سے اس سیریز کے بعد تھیٹر کے لیے بھی مسلسل لکھتا رہا۔
ریڈیو پاکستان لاہور اور پی ٹی وی لاہور اسٹیشن پر ’جھروکے‘ اور ’ٹپکن ٹولا‘ جیسی کام یاب سیریز کے علاوہ کئی ڈرامے بھی لکھے، بعد ازاں میری فلموں کی مصروفیت بھی بڑھتی گئی، وہ بھی ایک لمبی داستان ہے۔
سوال: پاکستان کی کون سی فلمی ہیروئن آپ کو پسند تھیں، جیسے شبنم، بابرہ شریف، نشو اور زیبا وغیرہ۔
اطہرشاہ خان: آپ نے سارے نام بوڑھی ہیروئنوں کے لیے ہیں، خیر یہ تو مذاق کی بات تھی، مجھے ذاتی طور پر زیبا بہت اچھی لگتی تھیں، میں نے ان کے ساتھ ایک فلم میں اداکاری بھی کی تھی۔
سوال: اب بھی فلمیں دیکھنے کا شوق ہے؟
اطہرشاہ خان: فلمیں تو دُور کی بات ہے، میں نے تو ٹیلی ویژن ڈرامے اور خبریں بھی دیکھنا چھوڑ دی ہیں، خبریں دیکھنے سے طبیعت مزید خراب ہو جاتی ہے، ڈرامے اس لیے نہیں دیکھتا، کیوں کہ مجھے آج کل کے ڈرامے سارے ایک جیسے لگتے ہیں، ایک ڈراما ختم ہوتا ہے، دُوسرا بھی ویسا ہی شروع ہو جاتا ہے۔
سوال: آپ لاہور میں فلم انڈسٹری سے بھی وابستہ رہے، کیسا رہا تھا وہ تجربہ؟
اطہرشاہ خان: لاہور کے لوگ بہت اچھے ہیں، جس زمانے میں لاہور گیا، وہ خُوب صورت دور تھا۔ ایک سے بڑھ کر ایک فلمیں بن رہی تھیں، میں نے پہلی فلم ’بازی‘ لکھی تو انڈسٹری میں دُھوم مچ گئی۔
اس فلم میں پہلی بار شہنشاہِ جذبات محمد علی اور ندیم مدِمقابل کاسٹ ہوئے تھے، اداکارہ نِشو کی بھی یہ پہلی فلم تھی، فلم ریلیز ہوئی تو میرے پاس بھی کئی پروڈیوسرز آ گئے، انہوں نے مجھ سے اُردو کے ساتھ پنجابی فلمیں لکھنے کی بھی ڈیمانڈ کی، میں نے فلم ’منجھی کتّھے ڈاہواں‘ لکھی۔
اس فلم نے باکس آفس پر پلاٹینیم جوبلی منائی، اس کے بعد لوگ مجھے پنجابی سمجھنے لگے تھے، وہ حیران تھے کہ اتنی اچھی پنجابی فلم کوئی اور کیسے لکھ سکتا ہے، اس فلم میں منور ظریف مرحوم کو بہترین اداکار کا ایوارڈ بھی دیا گیا تھا، میں نے چند فلموں میں اداکاری بھی کی اور پھر وہ وقت بھی آیا، جب میں نے فلم ’آس پاس‘ کی ڈائریکشن بھی دی۔
اس فلم میں ندیم، بابرہ شریف اور رانی نے مرکزی کردار ادا کیے تھے اور اس کی شان دار موسیقی نثار بزمی نے دی تھی، میری لکھی دیگر فلموں میں ماں بنی دُلہن، گونج اُٹھی شہنائی، جنگو وغیرہ شامل ہیں۔
سوال: اَدب کی دُنیا میں مزاح لکھنے والوں کو کیا مقام حاصل ہے؟
اطہرشاہ خان: مزاح کو کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا، میرے نزدیک مزاح وہ ہے جو ’ٹھاہ‘ کر کے لگے، ویسے ہمارے ملک میں کچھ لوگ مزاح کو ذرا کم تر چیز سمجھتے ہیں، حالاں کہ مزاح لکھنا، سنجیدہ لکھنے سے زیادہ مشکل کام ہے، اس وجہ سے میں نے مزاح کے ساتھ ساتھ سنجیدہ ڈرامے اور شاعری پر توجہ دی۔
میرے لکھے ہوئے زیادہ تر سنجیدہ ڈرامے لاہور اسٹیشن سے ٹیلی کاسٹ ہوئے، کراچی میں این ٹی ایم کے لیے ایک کام یاب سیریل ’شیشے کا گھر‘ لکھا تھا، جسے بہت پسند کیا گیا تھا، اسی طرح پی ٹی وی کے لیے مرزا غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر ایک یادگار سنجیدہ ڈراما ’تسکیں کو ہم نہ روئیں‘ لکھا۔
مجھے اپنی سنجیدہ شاعری سے ذہنی تسکین ملتی ہے، جب کہ تھیٹر پر اداکاری کرنے میں جو مزہ آتا تھا، وہ کسی میڈیم میں کبھی نہیں آیا، تھیٹر پر فن کار کی عمدہ کارکردگی کا اُسی وقت معلوم ہو جاتا ہے۔
اس وجہ سے تھیٹر کو فن کاروں کی بنیادی درس گاہ کا درجہ حاصل ہے، میرے ساتھ تھیٹر پر لہری، معین اختر اور دیگر مشہور فن کاروں نے کام کیا، اب تو تھیٹر کا بُرا حال کر دیا گیا ہے۔