• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چینی صدر ژیجن پنگ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ودھان کی پہلی غیر رسمی چوٹی ملاقات کے اٹھارہ ماہ بعد جب دوسری غیر رسمی ملاقات کے لیے تامل ناڈو کے ساحلی شعر ممالا پورم پہنچے تو تیرہ سو برس پہلے کے تاریخی مندروں کے سامنے کھڑے ہو کر مودی نے کوئی تصویری موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا اور اس مقامِ ملاقات کو سیاحوں کے لیے پُرکشش بنا دیا۔ 

وہ مختلف رنگا رنگ تقاریب میں تقریباً پانچ گھنٹے صدر ژی کے کانوں میں کھسر پھسر کرتے رہے اور ہفتہ کے روز بھی اُن کی تنہا ملاقات بوقتِ تحریر جاری تھی۔ 

ودھان کی ملاقات کی طرح اس بار بھی کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا جا رہا، البتہ دونوں ملک علیحدہ علیحدہ اپنا اپنا بیان جاری کریں گے۔ صدر ژی کے وفد میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو کے دو اراکین کی شمولیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ چینی وفد معاملات کو آگے بڑھانے میں سنجیدہ ہے۔ 

ابھی بات چیت جاری تھی تو دو بریکنگ نیوز آئیں۔ ایک تو بھارت اور چین میں ویزہ کو آسان بنانے کی خبر اور اُس سے بڑھ کر بڑی خبر جمعہ کو رات گئے واشنگٹن سے موصول ہوئی کہ چین کے نائب صدر لی ہی کے ساتھ ٹرمپ کی ملاقات کے بعد امریکہ اور چین میں جاری تجارتی جنگ فی الحال روک دی گئی۔ 

امریکہ نے چینی اشیا پر 250ارب ڈالرز کے جو ٹیکس بڑھائے تھے جو 15اکتوبر کے بعد 25سے 30فیصد ہونے جا رہے تھے، اُنہیں تھام لیا گیا ہے اور چین نے امریکی زرعی اجناس کے لیے 50ارب ڈالرز کے قریب مواقع کھول دیے ہیں اور تجارت، کرنسی، امریکہ کے چین کے ساتھ بڑے تجارتی خسارے اور کاروباری ترغیبات کے لیے کچھ پیش قدمی کی ہے جس سے عالمی منڈی میں اعتماد کی نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ 

ہفتہ کو جب مودی صدر ژی سے ملے تو چین امریکہ سے جاری اپنی تجارتی جنگ پہ ایک کامیاب سمجھوتا کر چکا تھا۔ جبکہ بھارت اور امریکہ میں تجارتی خسارےپر نہ صرف معاملات طے نہیں ہو پائے بلکہ تجارتی تعلقات میں ٹرمپ کی جانب سے دبائو بڑھ سکتا ہے۔ 

مودی کو اپنی پڑی ہے کہ بھارتی معیشت کی نمو چھ فیصد سے نیچے چلی گئی ہے اور مندے کی آمد آمد ہے۔ بھارت کا 95.5کی کل تجارت میں چین سے تجارتی خسارہ 2018میں 57.8ارب ڈالرز تک بڑھ چکا ہے اور مودی چاہتے ہیں کہ چین کی منڈی میں بھارتی برآمدات بڑھیں اور بھارت میں چینی سرمایہ کاری بھی ہو۔

 تین بڑی معیشتوں میں تجارتی تعلقات میں کشیدگی اور تجارتی جنگوں سے ظاہر ہے کہ دُنیا اب یک قطبی نہیں کثیر قطبی یعنی ملٹی پولر ہو چکی ہے جہاں ایک سپر پاور کی جگہ بہت سے اور تجارتی و اسٹرٹیجک مراکز اُبھر رہے ہیں، گو کہ ابھی بھی امریکی غلبہ کم ہونے کے باوجود برقرار ہے۔

ایسے میں جب سابقہ چینی ہندی بھائی ملے ہیں تو دونوں کو اگر بڑی فکر ہے تو اپنی اپنی معیشتوں کو آگے بڑھانے کی۔ صدر ژی نے عالمی تعاون کا جو وژن دیا ہے وہ انسانیت کی شراکت کا ہے اور اُس کا بڑا مظہر اُن کا روڈ اینڈ بیلٹ کا عالمی منصوبہ ہے جس کا سی پیک ایک علاقائی حصہ ہے۔ 

میرے خیال میں چینی صدر کی بھارتی وزیراعظم کے ساتھ اس دوسری غیر رسمی ملاقات کا زیادہ تر تعلق عالمی معاملات سے ہے جس میں چین اور بھارت آپس میں کوئی نئی نسبت (Equation) بنانے پر غور کرنے جا رہے ہیں، جس کا تعلق نہ صرف چین بھارت تجارتی تعلقات بلکہ علاقائی امن اور معاشی تعاون سے ہے۔ 

غالباً یہی وجہ ہے کہ چینی صدر کے بھارت کے دورے سے دو روز قبل وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف کا چین کا دورہ ہوا۔ چین نے کشمیر پر پاکستان کی اپنی روایتی حمایت جاری رکھتے ہوئے دو طرفہ بات چیت سے تنازع کے حل کی بات کی ہے۔ ویسے بھی چین بارہا اپنے بھارت کے ساتھ تنازعات کو معمول کے سفارتی ذرائع سے مینج (Manage) کرتے ہوئے، باہمی معاشی تعلقات کے فروغ کے ماڈل کو پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے قابلِ تقلید مثال کے طور پر پیش کرتا آیا ہے۔ 

وزیراعظم عمران خان کی چینی قیادت سے حالیہ ملاقات فقط خود سے سست رو کیے سی پیک کو پھر سے مہمیز لگانے کے لیے نہیں تھی کیونکہ اس سے متعلق اجلاس اگلے ماہ اسلام آباد میں ہونے جا رہا ہے، سی پیک اتھارٹی قائم کر دی گئی ہے اور گوادر کو ٹیکس فری کرنے کا حکم بھی جاری ہو چکا ہے۔ 

اس کا اصل مقصد چینی قیادت کا کشمیر سمیت علاقائی معاملات پر پاکستان کو اعتماد میں لینا تھا۔ 70روز کی نظربندی اور لاک ڈائون کے بعد کشمیر میں جاری بہیمانہ بندشوں کو آہستہ آہستہ ڈھیلا کرنے کا عمل ابھی شروع ہوا ہے جو سرما کی آمد کے ساتھ اور ڈھیلا پڑ جائے گا۔

 پاکستان نے سرکاری طور پر بات چیت شروع کرنے کے لیے دو شرائط رکھی ہیں: اوّل بندشوں کا خاتمہ؛ دوم گرفتار شدگان کی رہائی۔ بھارت پر بھی انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے نہ صرف بھارت کے اندر بلکہ دُنیا بھر میں آواز اُٹھ رہی ہے۔ چین پاکستان کی سلامتی کی حمایت کے ساتھ ساتھ کسی بھی علیحدگی کی تحریک کی حمایت نہیں کرتا۔

 لگتا ہے کہ مودی نے چین کے عمران خان کے دورے کے بعد جاری کیے گئے بیانات پر سرکاری طور پر سخت ردّعمل کے باوجود اُنہیں نظر انداز کرتے ہوئے اس معاملے پہ یقیناً کچھ ممکنہ اقدامات پر چینی صدر سے تبادلۂ خیال کیا ہوگا گو کہ سرکاری طور پر کسی تیسرے ملک کی سفارت کاری کو ردّ کیا جاتا رہے گا۔ 

وزیراعظم عمران خان بھلے سعودی عرب اور ایران کے درمیان نامہ و پیام کی سبک رفتاری دکھایا کئیں، کشمیر پہ اُنہیں عرب دوستوں سے کوئی مدد ملنے والی نہیں۔ کہیں یہ نہ ہو کہ جس طرح ٹرمپ نے شام سے اپنے اتحادی کُردوں کو ترکی کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کی ہے، وہ طالبان سے بات چیت کے نتیجہ خیز نہ ہونے پہ صبر کا دامن چھوڑ کر افغانستان سے رفوچکر ہو جائے۔

 ایسے میں اپنے گھر اور خطے کی فکر کرنا چاہئے۔ اس سے پہلے کہ اپوزیشن اسلام آباد میں دھرنا دے، کوئی بات نہ بھی کرنا چاہے تو مذاکرات کے لیے کھڑکیاں ہی نہیں دروازے کھولنے چاہئیں، کہیں یہ نہ ہو کہ بند پڑے کواڑ ہی ٹوٹ جائیں۔

تازہ ترین