• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترک صدر ایردوان نےامریکی دستوں کے شام میں قدم رکھنے کے فوراً بعد اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما کو کردوں کی دہشت گرد تنظیم پی کے کے، وائی پی جی اور ایس ڈی ایف سے دور رہنے اور ان کی حمایت سے باز رہنے کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے اپنے اتحادی ملک ترکی کی پروا کیے بغیر ان تمام دہشت گرد تنظیموں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور ان دہشت گرد تنظیموں کو ٹریننگ دینے کے ساتھ ساتھ مالی معاونت کا سلسلہ جاری رکھا اور صدر ٹرمپ جو شام سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا وعدہ کرکے اقتدار میں آئے تھے صورتحال کو دیکھ کر گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہوگئے۔ انہوں نے صدر ایردوان کے ساتھ اپنے رابطوں میں امریکہ اور نیٹو کے اتحادی ملک ہونے کے ناتے ترکی کی اہمیت کو تو اجاگر کیا لیکن ترکی سے کیے گئے وعدوں کی کبھی پاسداری نہ کی۔ انہوں نے شمالی شام میں ترک فوجی آپریشن رکوانے کے لیے اپنے وزیروں کو ترکی کے دورے پر روانہ کیا لیکن وہ صدر ایردوان کے مصمم ارادے کے سامنے کچھ نہ کرسکے۔ صدر ایردوان نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شام سے امریکی دستوں کے ساتھ دہشت گردوں کے انخلا کا مطالبہ کرتے ہوئے فوجی آپریشن کی وارننگ بھی دے ڈالی۔ ترکی کے اس انتباہ پر اگرچہ صدر ٹرمپ نے ابتدا میں ترکی کی معیشت کو تباہ کرنے کی دھمکی دی لیکن حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئےشمالی شام سے اپنے فوجی دستوں کا انخلا شروع کردیا جس سے ترکی کے لیے شمالی شام میں فوجی آپریشن شروع کرنے کی راہ ہموار ہوگئی۔ صدر ایردوان نے آپریشن پر روس اور ایران کو اعتماد میں لے لیا تھا۔ نو اکتوبر کو ٹویٹر اکاؤنٹ سے شمالی شام میں ’’چشمہ امن‘‘ کے نام سے فوجی آپریشن کا باقاعدہ آغاز کیا۔ انہوں نے آپریشن کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا کہ شمالی شام میں شامی پناہ گزینوں کے لیے ایک محفوظ علاقہ یا سیف زون بنانا ہے۔ امریکی رائے عامہ کے شدید دباؤ کے نتیجے میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ترکی کو شمالی شام میں آپریشن کی اجازت دینے کی خبروں کی تردید کی۔ ادھر یورپی یونین بھی معاملے کو سلامتی کونسل لے گیا لیکن وہاں اسے روس کی وجہ سے مشترکہ مذمتی قراداد پاس کروانے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم صدر ایردوان نے یورپی یونین پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ممالک جو سلامتی کونسل میں بیٹھ کر ترکی کو درس دے رہے ہیں کیا ان کو معلوم نہیں کہ ترکی کے خلاف کیا سازشیں کی جارہی ہیں؟‘‘ صدر ایردوان نے ان مغربی ممالک کی جانب سے اسلحہ فروخت کرنے کی پابندی لگانے سے متعلق ایک ترک محاورہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’بُرا ہمسایہ انسان کو گھر خریدنے پر مجبور کردیتا ہے‘‘ اور یہی حال یورپی یونین کا ہے انہوں نےترکی کو اسلحہ تیار کرنے کے قابل بنادیا ہے اور ترکی اپنی ضروریات کا ستر فیصد اسلحہ خود ہی تیار کرتا ہے اور وہ دن دور نہیں جب ترکی اپنی ضروریات کا تمام اسلحہ خود تیار کرے گا۔ انہوں نے یورپی یونین کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نے اس آپریشن کو جارحیت قرار دیا تو ہم ترکی میں پناہ لیے 36لاکھ شامی پناہ گزینوں کو یورپ بھیجنے کے لیے اپنے دروازے کھول دیں گے۔

سلامتی کونسل کے علاوہ عرب لیگ نے بھی ترک فوجی آپریشن کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کی ہے اور ترکی کے خلاف سفارتی و اقتصادی پابندیاں لگانے پر غور کرنے کا اعلان کیا ہے۔صدر ایردوان نے قرارداد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترکی ہی ہے جو شام کی سرزمین کے اس حصے کو جہاں پر کردوں نے عربوں کو نکال کر قبضہ کرلیا ہے، واپس ان کو دلوا رہا ہے۔ ترکی کے شمالی شام میں ’’چشمہ امن‘‘ آپریشن کی کھل کر حمایت کرنے والا ملک پاکستان ہی ہے۔ پہلے پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے فوجی آپریشن کی حمایت کا اعلان کیا پھر وزیراعظم عمران خان نے صدرایردوان کو ٹیلی فون کرتے ہوئے فوجی آپریشن کی مکمل حمایت کایقین دلایا۔ صدر ایردوان نے وزیراعظم پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فوجی آپریشن کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ یہاں اپنے قارئین کے ساتھ ایک خبر شیئر کرتا چلوں کہ یورپی یونین کی جانب سے ترکی کو اسلحہ فروخت پر پابندیاں لگانے پر پاکستان نےترکی کو فوجی سازو سامان کی پیش کش کی ہے۔ ماضی میںجب ترکی کو دہشت گرد تنظیم پی کے کے، کیخلاف جاری جنگ میں اسلحے کی ضرورت محسوس ہوئی تو پاکستان نےترکی کو اسلحہ فراہم کیا تھا اور قبرص کی جنگ میں مدد کی تھی کیونکہ اس وقت بھی مغربی ممالک نے ترکی کو تنہا چھوڑ دیا تھا اور ترکی کی مکمل حمایت اور امداد کرنے والا واحد ملک پاکستان ہی تھا۔ اسی لیے ترکی بھی ہمیشہ ہر معاملے خصوصاً مسئلہ کشمیر پر پاکستان کےموقف کی دل کھول کر حمایت کرتا ہے۔

تازہ ترین