• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں اس وقت سیاسی تقسیم (پولرائزیشن) بڑھ رہی ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان کے موجودہ معاشی بحران میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ حالات کی بہتری کے لیے کسی بھی فریق یا حلقے کی طرف سے کوئی کوشش نہیں ہو رہی، یہ بات بہت زیادہ تشویش ناک ہے۔سیاسی تقسیم جن خطوط پر ہو رہی ہے، وہ ماضی سے بہت مختلف ہے۔ اس سیاسی تقسیم کا ادراک نہ کیا گیا تو بہت خوفناک مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کا جو اعلان کیا ہے، اس سے یہ پولرائزیشن زیادہ واضح ہوئی ہے۔ 2014ء میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے جب لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا تھا اور پھر وہاں طویل دھرنا دیا تھا، اس وقت ہی ملک میں نئی سیاسی صف بندی ہو گئی تھی۔ لانگ مارچ اور دھرنا دینے والی دونوں سیاسی جماعتیں ایک طرف تھیں اور ملک کی باقی تمام بڑی سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں دوسری طرف تھیں، جن کا موقف یہ تھا کہ لانگ مارچ اور دھرنے کا مقصد صرف مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا خاتمہ یا اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کا استعفیٰ نہیں ہے بلکہ اس کا اصل مقصد پارلیمنٹ اور جمہوریت کو لپیٹنا ہے۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے لانگ مارچ اور دھرنے کے خلاف اور وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے تحفظ کے لیے ملک کی قابل ذکر سیاسی قوتیں متحد ہو گئی تھیں۔ انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ دھرنا دینے والی دونوں سیاسی جماعتیں غیر سیاسی قوتوں کے اشارے پر یہ سب کچھ کر رہی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسی سیاسی صف بندی ہوئی تھی، جس میں ترقی پسند، لبرل اور مذہبی یعنی دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی قوتیں ایک ہی صف میں کھڑی ہو گئی تھیں اور سب ایک ہی نکتے پر متفق تھیں کہ سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کو روکا جائے۔ اس وقت اگر اس سیاسی تقسیم یا صف بندی کا ادراک کرکے اس کا تدارک کیا جاتا تو آج اس طرح کے بحرانی حالات پیدا نہ ہوتے۔ پھر 2016ء میں تحریک انصاف نے دوبارہ دھرنا دیا، جس کے نتیجے میں پاناما لیکس سپریم کورٹ میں چلا اور اس کے بعد وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نااہل قرار پائے اور حالات تحریک انصاف کے حق میں بنتے چلے گئے۔ جولائی 2018کے عام انتخابات ہوئے اور مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی اور عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ عام انتخابات کے صرف ایک سال بعد ملک ایک بار پھر سیاسی بے چینی کی لپیٹ میں آگیا۔ آج جو حالات ہیں، وہ 2014ء میں ہونے والی سیاسی پولرائزیشن کا تدارک نہ کرنے کی وجہ سے ہیں۔ اس پولرائزیشن کو نظر انداز کرکے معاملات کو آگے بڑھایا گیا۔ پھر وہی سیاسی صف بندی نمایاں ہو گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے لانگ مارچ کی کچھ سیاسی جماعتوں نے حمایت کی ہے لیکن باقی سیاسی جماعتوں نے اس کی مخالفت بھی نہیں کی ہے۔ تحریک انصاف سیاسی طور پر 2014اور 2016کی طرح تنہا کھڑی ہے جو سیاسی جماعتیں تحریک انصاف کے 2014اور 2016کے لانگ مارچ اور دھرنوں کو پارلیمانی جمہوری نظام کے لیے سازش قرار دے رہی تھیں، وہ آج مولانا فضل الرحمٰن کے لانگ مارچ کو درست قرار دے رہی ہیں۔ اس کا سبب وہ سیاسی صف بندی ہے، جو پہلی مرتبہ ایسے خطوط پر ہوئی ہے۔ اس سیاسی تقسیم یا صف بندی کا ادراک اس وقت کرنا بہت ضروری ہے اور اسے مزید گہرا کرنے کے بجائے آزادانہ سیاسی عمل کے ذریعہ اسے منطقی انجام تک پہنچنے دیا جائے۔

وزیراعظم عمران خان نے بالآخر مولانا فضل الرحمٰن سے مذاکرات کے لیے اپنی جماعت کے رہنماؤں پر مشتمل کمیٹی بنانے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔ پرویز خٹک اس کمیٹی کے سربراہ ہوں گے لیکن مولانا فضل الرحمٰن نے مذاکرات کی صرف ایک شرط رکھی ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت مستعفی ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذاکرات کے امکانات بہت کم ہیں۔ یہ سیاسی تقسیم تصادم کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ باقی قوتیں نہ چاہتے ہوئے بھی مولانا فضل الرحمٰن کا ساتھ دیں گی کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے عوام میں حکومت مخالف جذبات شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ ہمیں اس سیاسی صف بندی کو قومی مفاد میں کھل کر بیان کرنا چاہئے۔ ایک فریق یہ سمجھتا ہے کہ تحریک انصاف کو مخصوص حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے۔ تحریک انصاف کے ذریعے ملک کی حقیقی سیاسی قوتوں اور سیاست کو ختم کیا جا رہا ہے۔ یہ سوچ مسلسل پروان چڑھ رہی ہے اور اس کا ادراک نہ کیا گیا تو بحران زیادہ شدت اختیار کر جائے گا۔ احتجاج یا آزادانہ سیاسی عمل کو روکنے کی کوشش کی گئی تو معاملات انتہا پسند قوتوں کے ہاتھ میں بھی جا سکتے ہیں۔

اس سیاسی پولرائزیشن کے معیشت پر بہت منفی اثرات پڑ سکتے ہیں، جو پہلے ہی انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ تاجروں اور صنعتکاروں سے لے کر سرکاری ملازمین مزوروں، کسانوں اور محنت کشوں تک سب تحریک انصاف کی معاشی پالیسیوں سے فی الحال ناخوش ہیں۔ نہ صرف بیروزگاری، مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ عالمی اور علاقائی سطح پر بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور دنیا میں معاشی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ بہت سی قوتیں ان حالات میں پاکستان کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ ضروری ہے کہ سیاسی پولرائزیشن کے عمل کو روکا جائے۔ قابلِ عمل سیاسی حل کے لیے قومی سطح پر ڈائیلاگ کا اہتمام کیا جائے، جس کا ایجنڈا یہ ہو کہ آئندہ ملک میں شفاف انتخابات کا نظام کیا ہو اور ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس جانب کہیں سے کوئی کوشش نہیں ہو رہی ہے۔

تازہ ترین