• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست کو عبادت کہنے والے جانے یہ کیوں فراموش کر دیتے ہیں کہ ’’اثر‘‘ کی سیاست ’’اجر‘‘ کی سیاست سے کہیں بہتر ہے۔ ایسے ہی اپوزیشن کی سیاست حکومتی سیاست سے مشکل سہی مگر اہم بہت ہے کیونکہ جتنی خدمت وزارتِ عظمیٰ کے اختیارات کے سبب ہوتی ہے اتنی نہ سہی لیکن بطور اپوزیشن لیڈر بے اختیاری میں کی جانے والی درست خدمت حکومتی اور اپوزیشن سیاست کا قبلہ درست رکھنے میں بیحد معاون ہوتی ہے! حالات کے بگڑنے اور معاملات کے بکھرنے سے گاڑی پٹری سے اتر جائے تو پوری قوم کو نقصان کا سامنا ہوتا ہے۔ کسی حکومت کا دل نہیں چاہتا کہ اس کے ہوتے ہوئے عوام فاقہ کشی و بیروزگاری اور بے اعتباری و ناانصافی کے چنگل میں پھنسیں۔ دور کوئی بھی ہو، اپوزیشن کبھی تر نوالہ ہوتی ہے نہ چیلنجز زود ہضم، سو حکومتی قیادت کو چشم بینا رکھنا پڑتی ہے۔ لیڈر وہی ہوتا ہے جو بند گلی سے راستہ نکالنے کے ہنر سے آشنا ہو۔ ماضی اور آج کے دھرنوں والے ذہن نشین رکھیں، 1987، 1990، 1993، 1996اور 1999ء، جمہوریت کو جب جب لپیٹا گیا اس کے کوئی بہتر ثمرات میسر نہیں آئے لیکن جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کیلئے ’’جمہوریت نوازوں‘‘ ہی سے سہولت کار ضرور میسر آئے۔ نہ 1977ہی میں حکومت کو چلتا کرنے کے بعد اسلام آگیا تھا اور نہ اس سے قبل غلام محمد اور جنرل ایوب خان ہی کوئی مناسب آئین اور سسٹم مہیا کر سکے۔ ہر دفعہ فرق صرف اتنا پڑتا رہا کہ قائدین سولی چڑھے، قتل ہوئے یا پس دیوارِ زنداں گئے، پریشر گروپوں اور پارٹیاں بدلنے والے ’’کرم فرماؤں‘‘ کی اقتدار کے کاریڈور میں رسائی بدستور بڑھتی رہی۔ ایسے واقعات میں سے کوئی ماہر سیاسیات و ماہر معاشیات ترقی اور بناؤ کو فی زمانہ دریافت کرلے تو یہ اس کی ’’بہادری‘‘ ہے!

ناانصافی ایسا ناگ ہے جو مہنگائی، لاقانونیت، عدم تحفظ، بیروزگاری اور ناخواندگی جیسے زہروں کو عوام کی رگوں میں اتارتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان تمام تر صلاحیتوں کے باوجود عوام کیلئے باعث مسرت نہیں تاہم خواص کیلئے سونے کی چڑیا ہے۔ ان خواص کیلئے جنہیں لوگ محبت میں لوٹے، سول سرونٹ، ایجوکیشن مافیا، رئیل اسٹیٹ مافیا اور ہیلتھ سیکٹر مافیا کہتے ہیں۔ بدقسمتی کہئے یا حکومتی بے عملی کہ اس حکومت کو بھی اپنے دام میں پھنسا لیا گیاہے، یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں راستے معدوم ہونے لگتے ہیں۔

اب ایکوسسٹم کی صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف سیاسی غیریقینی ہے، دوسری طرف شہری اور ریاست کا معاشی معاہدہ کمزور ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اور سب سے مہلک بات یہ کہ احتساب کے طرزِ عمل نے غیر یقینی صورتحال کو ازخود بڑھاوا دیا ہے۔

غیر یقینی صورتحال سیاسی ہو یا معاشی، دونوں صورتوں میں اسے یقینی بنانے کے لئے اعتماد کی فضا درکار ہوتی ہے۔ بعض اوقات اس کا حل ثالث ہوا کرتے ہیں۔ کم لوگ ثالثی کی اہمیت اور برکت سے آشنا ہوتے ہیں جو قیادت آشنا ہوتی ہے وہ محلے سے قومی و بین الاقوامی سطح تک نہیں پھنستی۔ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں پاکستان میں سیاسی و معاشی ترقی کے تمام تر اجزا تو موجود ہیں مگر ہم استفادہ کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ اس وقت سیاست اور معیشت غیر یقینی کے گرداب میں ہیں، اس دو راہے پر قیادت کے سامنے سوال یہ ہے کہ ہم معاشی اور سیاسی ثالث کیسے دریافت کریں؟ کیا معیشت کے لئے کوئی آئی ایم ایف یا کوئی این جی او یا غیر ممالک میں آباد پاکستانی؟ سیاست کیلئے کوئی نوابزادہ نصراللہ خان؟ سچ تو یہ ہے کہ ان سوالوں کے جوابات اور ان لوگوں کی دریافت ہی موجودہ وزیراعظم کو درکار ہے جو مسائل کا یقینی حل ہے، باقی سب افسانے ہیں۔

مان لیا حکومت کے پاس مینڈیٹ ہے مگر کوئی معاشی و معاشرتی پروگرام، کوئی عوامی ریلیف کہاں ہے؟ مانا کہ پاکستان نے اس حکومت کو سعودی عرب و ایران کے مابین ثالث بنا دیا مگر کشمیر کا پروگرام کہاں ہے؟ مہاتیر اور اردوان ہمارے آئیڈیل سہی مگر داخلی و معاشی پلان کہاں ہیں؟ ان سب سوالات کے جوابات حکومت ہی کو دینا ہیں اپوزیشن کو نہیں۔ یہ بھی مان لیا کہ مشکل وقت میں اپوزیشن کو حکومت کا ساتھ دینا چاہئے اور ضرور دینا چاہئے لیکن ساتھ اور معاونت لینے کا حکومتی پلان کہاں ہے؟ بہت اچھا ہوا مولانا مارچ روکنے کیلئے سات رکنی کمیٹی تشکیل دے دی۔ صادق سنجرانی اور پرویز الٰہی مولانا کو زیر اثر لانے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں لیکن دینے کے لئے ہے کیا؟ اسد قیصر بے بس ہیں اور اسد عمر کو حکومت خود ’’فارغ‘‘ بنا بیٹھی، پرویز خٹک، شفقت محمود اور قادری صاحب نے اپنے پیپلز پارٹی کے دور سے جو تدبر سیکھا وہ یقیناً اسے بروئے کار لائیں گے مگر اس سے اپنی ہی حکومتی مذاکراتی کمیٹی کو محض مانیٹر ہی کر پائیں گے، اور کچھ نہیں۔

ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی کے مقابلے پر بالترتیب قومی اتحاد اور اسلامی جمہوری اتحاد کے جھنڈے تلے مذہبی رہنما، ساری مسلم لیگیں اور سارے نام نہاد دائیں بازو والے مل کر بھی الیکشن ہارتے اور تحریکیں بھی چلاتے تھے تو کیا بھٹو اور بی بی کی مقبولیت معاشی و معاشرتی کامیابی کی گارنٹی بھی بنے؟ پھر میاں نواز شریف کی مقبولیت نے بھٹو سیاست کے آگے بند باندھے تو کیا میاں صاحب کی مقبولیت کی بھٹو شکن سیاست انصاف اور انسداد بدعنوانی کی گارنٹی بنی؟ جب نعرۂ تبدیلی بے جان ہوتا دکھائی دے رہا ہے تو عمرانی مقبولیت کا کیا ؟ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی؍ یہ ’’خاکی‘‘ اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔

مانا کہ وزیراعظم کی بات درست کہ انہیں دھرنے کی پروا نہیں لیکن شایدان کے ’’بہی خواہوں‘‘ کو مولانا کی پروا ہے! اگر آگے چلنا ہے تو یہاں ایک نوابزادہ نصراللہ خان کی ضرورت ہے جو اسمبلی کے اندر باہر خصوصی مقام رکھتا ہو کیونکہ سیاست میں جمہوری جدوجہد اور اتحاد کے نصراللہ ازم کا فقدان ہے!

تازہ ترین