توقع کے عین مطابق پاکستان مسلم لیگ ن دھرنے کے ایشو پر کھل کر سامنے آ گئی اور اس نے مولانا فضل الرحمٰن کا ساتھ دینے کا ببانگ دہل اعلان کر دیا۔ تفصیلات یہ تھیں کہ حکومت نے تشدد کا راستہ اپنایا تو بدلہ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کوئی ہمارے پُر امن جذبات کو کمزوری نہ سمجھے، ملک ہم سب کا ہے۔ آزادی مارچ میں شریک ہوں گے۔
نواز شریف نے روڈ میپ دے دیا۔ فضل الرحمٰن سے شہباز شریف کو شیئر کرنے کی ہدایت کی۔ شہباز شریف نے موقع پر ہی اعلان کر دیا ’’نواز شریف کا حکم سر آنکھوں پر، آخری وقت تک ان کے ساتھ کھڑا رہوں گا‘‘۔
ماڈل ٹائون سیکرٹریٹ میں منعقدہ اجلاس میں شہباز شریف نے نواز شریف کا خط پڑھ کر سنایا، اس خط کی روشنی میں لیگی رہنمائوں نے اس نقطہ نظر کا اظہار کیا کہ قائد نے آزادی مارچ کی حمایت کی ہے تو ن لیگ اس میں ضرور شریک ہوگی۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ قافلے ماڈل ٹائون لاہور میں اکٹھے ہوں یا اندرون لاہور میں؟ جس پر شہباز شریف کا نقطہ نظر یہ تھا کہ مولانا کچھ بتائیں تو ہم آگے کچھ کریں گے، اس موقع پر شہباز شریف نے کچھ گلے شکوے بھی کئے اور کہا کہ میڈیا میں ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے اور غلط باتیں ان سے منسوب کی جا رہی ہیں۔ میرے قائد اور بڑے بھائی نواز شریف مجھے جانتے ہیں۔
آخری وقت تک نواز شریف کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔ نواز شریف کا خط لے کر مسلم لیگ ’’ن‘‘ کا وفد مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کرے گا۔
مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کی متوقع صورتحال خاصی بیدار اور طاقتور محسوس ہوتی ہے، اپوزیشن آہستہ آہستہ اکٹھا ہوتی جا رہی ہے، یہ اکٹھ حکومت کے لئے مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
عمران لابی کے ایک حامی دانشور کے خیال میں گو ’’اسٹیٹس کو کی طاقتور علامتیں روایاتی رویوں کی حامل بیورو کریسی اور ٹیکس بیزار تاجر برادری کو اپنی مزاحمتی طاقت ثابت کرنے کے لئے اب سماجی پسماندگی سے کشید کی گئی اپنی طاقت ’’مدارس کے طلباء‘‘ کے ساتھ حضرت مولانا نے اسلام آباد کے ایوانوں سے محرومی کے ردعمل میں شہر اقتدار میں میدان لگانے کی ٹھانی ہے۔
انہیں مقبوضہ کشمیر کے حالات اور اس کی بنتی تاریخ سے کوئی غرض نہیں دیکھتے ہیں، مولانا کی مہم جوئی کیا رنگ دکھاتی ہے؟‘‘
مولانا کی تحریک مزاحمت یا زرداری کا مقبوضہ کشمیر سے کیا تعلق اور اس کے کیا اثرات ہیں، اس پر سوائے صبر کے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مقبوضہ کشمیر کی ایک پوری تاریخ ہے جس میں بین الاقوامی طاقتوں اور پاکستانی حکومتوں کی بے حد تشویشناک تاریخی رویے دکھائی دیتے ہیں، سمجھ نہیں آتی مولانا کا ایک مقامی آزادی مارچ اس تاریخ میں کیا مزید بگاڑ پیدا کر سکے گا یا کر دے گا؟ یہ تو ایک اندرونی سیاسی اختلاف ہے جسے عمران حکومت کو سنبھالنا پڑ رہا ہے۔
مثلاً اب ایک رائے یہ بھی ہے کہ ’’مولانا فضل الرحمٰن اگرچہ واحد سیاستدان نہیں تھے جن کا خیال ہے کہ 2018کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور حکمران جماعت کی نشستیں بڑھائی گئیں۔
ایسے ہی اور بہت سے الزامات لگائے جاتے ہیں جن کی بنیاد پر مولانا فضل الرحمٰن نے انتخاب کے فوری بعد مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور پیپلز پارٹی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ حلف نہ اٹھائیں اور الیکشن میں دھاندلی کے خلاف جدوجہد کریں لیکن اس وقت اپوزیشن جماعتیں اپنے اپنے مفادات کی اسیر تھیں اور صدارتی الیکشن میں متفقہ امیدوار کھڑا نہ کر سکیں، اسی طرح کئی دوسرے مواقع پر مولانا فضل الرحمٰن کی استعفوں کی تجویز کو پذیرائی نہ بخشی گئی۔
اصل طاقت جس طرح پنجاب میں عوامی سطح پر ’’ن‘‘ لیگ کی ہے، اسی طرح سندھ میں عوامی سطح پر پاکستان پیپلز پارٹی کی ہے، گوالزام ہے کہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے کار پردازوں نے سندھ کی منتخب صوبائی حکومت کو زچ اور ناکام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، کشمیر جیسے ایشو کو اقوام متحدہ کی سیاسی اخلاقیات کی خلاف ورزی کے برابر کا درجہ دے کر خوب خوب زبان درازیاں کی گئیں،
بڑے بڑے تحریک انصاف کے وزراء شہر کے وارث اور ’’ہمدرد‘‘ بن کر پہلی دفعہ عوام کے سامنے آئے لیکن ابھی تک بات نہیں بن سکی اور اب عمران حکومت کے ترجمان لفظی گولہ باریوں کے اسٹاک سے کام لے رہے ہیں، ہمارے خیال میں لوگ عمران حکومت کے رویے سے نالاں ہو چکے ہیں اور ملک میں اقتصادی اور سماجی سطح پر سرکاری اہلکاروں کے ذریعہ جس ’’خوف‘‘ کا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے اس نے مولانا فضل الرحمٰن کو بہر صورت دھرنا دینےکی وجہ دی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اب کھل کر سامنے آ چکے ہیں، رہ گیا میڈیا، میڈیا کے معاملے میں آپ اس بات کے منتظر ہیں کہ مولانا اور مولانا کے آزادی مارچ کے خلاف غلط فہمیوں اور مبالغہ آرائیوں کا طوفان اٹھایا جاتا رہے گا، بڑے بڑے دانشور بڑی بڑی دل شکن پیش گوئیاں اور ’’تشویشناکیاں‘‘ ظاہر کریں گے لیکن لگتا یوں ہے اسلام آباد سے قافلے چل پڑے اور اس طرح چل پڑے جس طرح مولانا فضل الرحمٰن کا دعویٰ ہے تب ھر اس ’’سونامی طوفان‘‘ کے جھکڑوں سے عمران حکومت کے آشیانے کی سلامتی ممکن نہیں رہے گی۔
کاش اس موقع پر جناب مجیب الرحمٰن شامی یہ سوال نہ اٹھاتے کہ ’’یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ تاجروں اور صنعت کاروں کو بڑی تعداد میں ’’اذنِ باریابی‘‘ دے کر ان کی شکایات سنی جا سکتی ہیں اور ان کے ازالہ کے لئے خصوصی اہتمام فرمایا جا سکتا ہے تو اہل سیاست کو سننے والے کان فراہم کیوں نہیں کئے جا سکتے۔
ان کے دل پر ہاتھ کیوں نہیں رکھا جاتا وہ خود پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ کے عینی شاہد ہیں ہمارے ہاں ایسے نیک اور صالح کام ہونے خواب میں خاکسار کی طرح وہ بھی اب 27اکتوبر کا انتظار کریں اور پھر دیکھیں اس ’’سونامی سمندر‘‘ سے برآمد کیا ہوتا ہے، استعفے یا سمجھوتہ یا دمادم مست قلندر‘‘۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)