نواب شاہ میں پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کے گھر پر مسلح افراد نے دھاوا بول کردو خواتین کو اغوا کرلیا۔ پولیس نے بڑی کوششوں کے بعد انہیں بازیاب کراکے مبینہ ملزمان کو گرفتار کرلیا۔سندھ کے شہروں اور دیہی علاقوں میں پسند کی شادی کا رواج عام ہوگیاہے۔ سماجی شعور آنے اور موبائل و دیگر ٹیکنالوجیز کے استعمال کے بعد نسل نو میں فرسودہ رسومات کے خلاف باغیانہ رجحانات پیدا ہوگئے ہیں۔
خاندانی روایات اور رسم و رواج سے بغاوت کے بعدکورٹ میرج یاکسی نکاح خواں کے توسط سے پسند کی شادی کرنے ولے جوڑوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔سندھ کا خطہ جو ہزاروں سالہ قدیم روایات کا امین ہے، وہاں اس فعل کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔ خاندانی اور قبائلی ورایات سے انحراف کرکے پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو اپنے ہی گھر والوں کی ناراضی کا سامنا کرناپڑتا ہے ۔
بیشتر جوڑوں کو اس باغیانہ رجحان پر زندگیوں سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ پسند کی شادی کرنے والے جوڑے ،رشتہ ازدواج میں بندھنے کے بعد تھانے، کورٹ یا پریس کلبوں کا رخ کرتے ہیں جہاں وہ اپنی جانوں کے تحفظ کی درخواستیں کرتے ہیں، لیکن پولیس بعض اوقات ان کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہے جس کی وجہ سے دوہرے قتل کی دردناک وارداتیں رونما ہوتی ہیں۔
اسی طرح کاایک واقعہ نواب شاہ کے تھانہ ساٹھ میل کے گاؤں رندولغاری میں پیش آیا جہاں گائوں کے رہائشی چوہان برادری کے نوجوان نے اسی گاؤں میں رہنے والی لغاری برادری سے تعلق رکھنے والی لڑکی جو نوشہروفیروز میں رہائش پذیر تھی، موبائل فون پر دوستی کرلی۔ دونوں کے درمیان پیار و محبت سے بات شادی تک جا پہنچی۔
دونوں افراد رات کے اندھیرے میں اپنے گھروں سےفرار ہوگئے اور اپنے خاندان والوں کی مرضی کے خلاف شادی کرلی۔ اس دوران لغاری برادری کے افراد اپنی لڑکی کو تلاش کرتے رہے اور انہوں نے گائوں رندو لغاری میں چوہان برادری کے افراد پر مذکورہ لڑکی کو ان کے حوالے کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تاہم چوہان برادری کے افراد کا استد لال تھا کہ اُن کا لڑکا اُنہیں بتائے بغیر کہیں غائب ہوگیا ہے۔اس کے گھر سے فرارہونے کے بعد ان کا اپنے لڑکے اور مذکورہ لڑکی سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
اسی اثناء میں لغاری برادری کے افراد کو مذکورہ لڑکی اور لڑکے کی رندو لغاری میں چوہان برادری کے گھر میں رہنے کی اطلاع ملی۔ لغاری برادری کے ایک درجن سے زائد مسلح افراد گائوں رندو لغاری میں چویان برادری کے گھروں پرحملہ آور ہوئےلیکن مذکورہ جوڑے کی تلاش میں ناکامی پر وہ اٹھارہ سالہ لڑکی مسمات مقدس چوہان اور چالیس سالہ خاتون مسمات نسیم اختر چوہان کو اغواء کرکےلے گئے۔
ایس ایس پی تنویر حسین تنیو کو جب اس واقعے کی اطلاع ملی تو انہوں نے فوری نوٹس لیتے ہوئے پولیس پارٹی تشکیل دی اورمغوی خواتین کو راستے سے ہی بازیاب کروالیا گیااور اغواء کرنے والے ملزمان کے خلاف مقدمات درج کر کے گرفتاریاں کی گئیں ۔
اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ چوہان برادری کے نوجوان کی جانب سے لغاری برادری کی لڑکی کو اٹھاکے جانے سے ان کے رشتہ دار رنجیدہ تھے اور اس کا بدلہ لینے کے لئے انہوں نے چوہان برادری کی دو خواتین کو اغواء کیا۔ تاہم پولیس نے علاقہ کی ناکہ بندی کرکے بر وقت کارروائی کرتے ہوئے سے دونوں خواتین کو بحفاظت اُن کے چنگل سے آزاد کرالیا ۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پسند کہ شادی کرنے والوں کے رشتہ داروں کو مختلف النوع قسام کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس میں اُن کی رشتہ دار خواتین کے اغواء کے علاوہ قتل کی وارداتیں بھی رونما ہورہی ہیں۔ضلع شہید بے نظیر آبادکے مختلف تھانوں کے اعدادوشمار کے مطابق پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کے بہن بھائی حتیٰ کہ بوڑھے والدین بھی انتقام کا نشانہ بنتے ہیں۔
جبکہ ایک سروے کے مطابق سندھ کے دیہی علاقوں میں کی جانے والی پسند کی شادی میں سے ساٹھ سے ستر فیصد شادیاں ناکام ٹابت ہوتی ہیں لیکن بچوںکی من مانیوں کی وجہ سے دو خاندانوں یا قبائل کے درمیان انتقام کی آگ بہت سی بے گناہ زندگیوں کو بھسم یا عزتوں کو پامال کردیتی ہے۔ والدین کو اپنی اولاد کی سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام قبل ازوقت ہوسکے۔