خواتین پر تشدد کے واقعات کی خبریں زبان زد عام ہیں، کوئی دن ہی شاید ایسا گزرتا ہوگا جب حوا کی بیٹی پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کی خبریں سننے یا پڑھنے کو نہ ملتی ہوں۔ کچھ واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں جہالت اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ سکھر کے نواحی علاقے پنوعاقل میں پیش آیا، جہاں ضعیف العمرشوہر نے چائے میں چینی زیادہ مل جانے جیسی معمولی بات پر آگ بگولہ ہوکر اپنی 55سالہ بیوی کو کلہاڑیوں کے پے در پے وار کرکے قتل کردیا جبکہ شکارپور و لاڑکانہ میں سیاہ کاری کی فرسودہ رسم کے تحت 2خواتین سمیت 3افراد کی زندگیوں کا چراغ گل کردیا گیا۔
اول الذکر واقعہ ضلع سکھر کے نواحی علاقے پنوعاقل میں پیش آیا، جہاں بوڑھے شوہرنے چائے میں چینی زیادہ ڈالےجانے پر طیش میں آکر بیوی کو کلہاڑیوں کے وار کرکے قتل کردیا۔پولیس کے مطابق پنوعاقل کے علاقے سلطان پور میں ایک شخص نے اپنی 55سالہ بیوی کو چائے صحیح نہ بنانے پر کلہاڑیوں کے وار کرکے قتل کیا جس کی اطلاع ملنے پر پولیس نے فوری طور پر جائے واردات پر پہنچ کر ملزم ابراہیم کو گرفتار کرکے اس کے قبضہ سے آلہ قتل برآمد کرلیا ۔
مقتولہ کی لاش پوسٹ مارٹم کے لئے متعلقہ اسپتال منتقل کی گئی ، جسے قانونی کارروائی کے بعد ورثاء کے حوالے کردیا گیا۔ ملزم ابراہیم کے خلاف قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور اس سےمزید تفتیش کی جارہی ہے۔
شکارپور اور رتو ڈیرو میں سیاہ کاری کے الزام میں قتل کے دو واقعات پیش آئے، جن میں 2خواتین سیاہ کاری کی فرسودہ رسم کی بھینٹ چڑھا دی گئیں جب کہ ایک خاتون کے مبینہ آشنا کو بھی موت کی نیند سلادیا گیا۔ پولیس کے مطابق پہلے واقعے شکارپور کے گائوں میں سیاہ کاری کے الزام میں خاتون سمیت 2افراد کو قتل کردیا گیا۔ ملزم ملہار نے اپنی بیوی اور اس کے مبینہ آشنا کو فائرنگ کرکے قتل کیا، مقتولین کی شناخت سدھیر اور رانی خاتون کے نام سے ہوئی ہے، پولیس نے لاشیں تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کے بعد ورثاء کے حوالے کردیں۔
کاروکاری کا دوسرا واقعہ لاڑکانہ کے علاقے رتو ڈیرو کے تھانہ وارث ڈنو ماچھی کی حدود میں پیش آیا جس کی پاداش میں شوہر نے بیوی کو قتل کردیا۔ بتایا جارہا ہے کہ گائوں سونو بروہی میں زر خاتون گھاس کاٹ رہی تھی کہ اس کے شوہر سعید احمد نے فائر کرکے قتل کردیا ۔ بیوی کو قتل کرنے کے بعد ملزم نے ایک شخص محمد صلاح کو بھی فائرنگ کرکے زخمی کردیا۔ پولیس نے مقتولہ خاتون کی نعش تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کرانے کے بعد ورثاء کے حوالے کردی جبکہ زخمی کو لاڑکانہ سول اسپتال سکھر میں داخل کرادیا گیا۔
سائنس و ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کے اس جدید دور میں جب انسان خلاء میں پہنچ گیا ہے، ہمارے ملک میں اب بھی جہالت کا دور دورہ ہے ۔ آج بھی خواتین پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے جاتے ہیں اس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ خواتین کا اغوا، اجتماعی زیادتی، جنسی تشدد، غیرت کے نام پر قتل،زندہ جلا ئے جانے، تیزاب پھینکنے، گھریلو تشدد یا چولہا پھٹنے سے ہلاکت کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے۔
خواتین کے حقوق کی نفی، ونی، کاروکاری، غیرت کے نام پر قتل، پنچایتوںمیں عورت کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے واقعات کو افسوس ناک ہی کہا جاسکتا ہے۔ کارو کاری ایک ایسی فرسودہ رسم ہے جس کے تحت خاتون پر الزام عائد کرکے اس کی زندگی کا چراغ بجھادیا جاتا ہے۔ روایتی اعتبار سے اس طرح کے قتل کو عام قتل نہیں بلکہ غیرت کے نام پر قتل یا ناموسی قتل کہا جاتا ہے۔ اس رسم کی بھینٹ چڑھنے والی صرف خواتین ہوتی ہیں ۔ حکومتی دعوئوں، اعلانات اور قانون سازی کے باوجود اس فرسودہ رسم کا خاتمہ نہیں ہوسکا ۔
ایس ایس پی سکھر عرفان علی سموں نے نمائندہ جنگ سے گفتگو کرتےہوئے بتایا کہ پولیس کی جانب سے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے اور کاروکار ی جیسی قبیح رسومات کے خاتمے کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جارہے ہیں، اس حوالے سے خصوصی سیل بھی قائم کئے گئے ہیں۔ پولیس کو اگر کسی بھی علاقے سے خاتون پر کسی بھی قسم کے تشدد یااس نوع کے دیگر واقعات کی اطلاع موصول ہوتی ہے تووہ فوراً کارروائی کرتی ہے تاہم معاشرے میں رائج فرسودہ رسومات کے خاتمے کے لئے تمام افراد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
ماضی میں یہ بھی ہوتا تھا کہ پولیس قتل کی سنگین وارداتوں بالخصوص سیاہ کاری کے تحت خواتین کو قتل کئے جانے کے مقدمات درج نہیں کیا کرتی تھی ۔اس رسم کی بھینٹ چڑھنے والی ’’گناہ گارخواتین ‘‘کے ورثاء ملزمان کے اثر و رسوخ اور خوف کی وجہ سے مقدمات درج کرانے سے گریز کیا کرتے تھے اورمعاملہ رفع دفع ہوجاتا تھا اور ملزمان آزاد رہتے تھے ۔مگر اب پولیس نے ماضی کے برعکس سیاہ کاری کے الزام کے تحت خواتین کے قتل کے مقدمات سرکار کی مدعیت میں درج کرنا شروع کردیے ہیں تاکہ اس فرسودہ رسم کے تحت خواتین کی زندگیوں کے چراغ گل کر نے والوں کو قانون کی گرفت میں لایا جاسکے۔
سیاہ کاری کی فرسودہ رسم کے تحت خواتین کے قتل کے واقعات میں کمی نہ آنا خواتین کے حقوق کے لئے کامکرنے والی تنظیموں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ خواتین کے حقوق کے تحفظ کا نعرہ لگاکرسیاست کرنے والی متعدد تنظیمیں خواتین پر ہونے والے تشدد اور کارو کاری کے تحت خواتین کے قتل کے خلاف طویل عرصے سے جدوجہدتو کررہی ہیں مگر ان کی یہ کاوشیں صرف تقاریر اور بیانات اور کاغذوں کی حد تک ہی محدود ہیں۔
وہ علاقے جہاں پر اس طرح کی فرسودہ رسومات کے تحت خواتین کو قتل کردیا جاتا ہے وہاں پر یہ تنظیمیں کام کرتی ہوئی دکھائی نہیںدیتیں۔سیاہ کاری کے خود ساختہ قانون اور دور جہالت کی رسم کے خاتمے کے لئے پولیس کے ساتھ ساتھ تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔ اکثر واقعات میں خاتون کو سیاہ کاری کے الزام کے تحت قتل کرنے کے بعد ہی پولیس کو اطلاع ملتی ہے، بعض مواقع پر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر قتل کی واردات سے قبل اطلاع ملنے پر پولیس کارروائی کرتے ہوئے خاتون کو بازیاب کرابھی لیتی ہے تو بھی بعد میں اس کی زندگی کو خطرات لاحق رہتے ہیں۔
اس لئے اس فرسودہ رسم کو ختم کرنا صرف پولیس کے اختیار میں نہیں بلکہ تمام مکاتب فکر کو اس حوالے سے آگے بڑھ کر اپنا عملی کردار ادا کرنا ہوگا اور لوگوں میں اس حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہوگا۔ خاص طور پر اس حوالے سے مزید سخت قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ جس قدر او رجتنی جلدی ممکن ہوسکے ان فرسودہ رسومات کی روک تھام کو یقینی بنایا جاسکے۔