اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی انسانی بنیادوں پر منگل تک عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے رہائی کا فیصلہ سنایا۔
عدالت نے عبوری ضمانت کے لیے 20، 20 لاکھ روپے کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سماعت کی اور عدالت کارروائی کے چوتھے وقفے کے بعد فیصلہ لکھوایا۔
ذرائع کے مطابق دوران سماعت عدالت کے روبرو وفاقی حکومت نے سابق وزیراعطم نواز شریف کی ذمہ داری لینے سے انکار کردیا۔
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے عدالت کو بتایا کہ انسانی بنیادوں پر نواز شریف کی ضمانت کی درخواست پر اعتراض نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ ہم وفاقی و صوبائی حکومت کو ہدایات جاری کررہے ہیں، وزیراعظم عمران خان، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال اپنے نمائندے مقرر کریں اور عدالت کو معاملے سے آگاہ کریں۔
مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں آج ایک درخواست کی تھی، جس میں میاں نواز شریف کی سزا معطلی کی درخواست ایمرجنسی بنیادوں پر سننے کی استدعا کی۔
شہباز شریف نے 11 رکنی اسپیشل میڈیکل کی رپورٹ بھی اپنی درخواست کے ساتھ منسلک کی، جس پر دو رکنی ڈویژنل بنچ نے سماعت کی۔
دوران سماعت چوتھے وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے نواز شریف کی انسانی بنیادوں پر عبوری ضمانت پر رہائی کی درخواست منظور کرلی۔
عدالت نے عبوری ضمانت کے لیے 20، 20 لاکھ روپے کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا اور ان کی ضمانت منگل تک کے لیے منظور کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ڈویژن بینچ نے اس معاملے کو منگل کے لیے رکھا ہے، سزا یافتہ قیدی کے معاملے میں صوبائی حکومت کو اختیار ہے کہ وہ سزا معطل کر سکتی ہے لہٰذا ایسی صورت میں یہ معاملات عدالت میں نہیں آنے چاہئیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے سوال کیا کہ ایسی کیا عجلت ہوئی کہ جلد سماعت کی درخواست دائر کی گئی، اس پر شہبازشریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نوازشریف کو معمولی ہارٹ اٹیک ہوا ہے، کل کے بعد ان کی طبیعت مزید خراب ہوئی ہے، ان کی جان کو خطرہ ہے۔
اس کے بعد عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو روسٹرم پر بلایا اور انہیں جیل قوانین پڑھنے کی ہدایت کی۔
اس موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست عدالت نہیں آنی چاہیے، یہ حکومت کا اختیار ہے، آپ نے پتہ کیا کہ پنجاب حکومت نے جیل میں تمام بیمار قیدیوں کا معلوم کیا؟ آپ نے میڈیکل بورڈ مقررکیا۔
جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ نوازشریف کی حالت تشویشناک ہے اور انہیں جان لیوا بیماری ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب کو ہدایت کی کہ آدھے گھنٹے میں چیئرمین نیب سے ہدایات لیں اور پوچھ کر بتائیں کہ وہ ضمانت کی مخالفت کریں گے یا بیان حلفی جمع کرائیں گے؟
اعلیٰ عدالت نے پنجاب حکومت کے نمائندے کو بھی ہدایت کی کہ وزیراعلیٰ پنجاب سے بھی پوچھ کر بتائیں کہ وہ ضمانت کی درخواست پرکیا کہتے ہیں؟
اس پر عدالت نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کیا۔
گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ نے میاں نواز شریف کی چوہدری شوگر ملز کیس میں طبی بنیادوں پر ضمانت منظور کی ہے تاہم ان کی رہائی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی تک ناممکن ہے۔
معلوم رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف کو 7 سال قید کی سزا سنا رکھی ہے۔