• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں گھوم پھر کر دوبارہ اسی دلّی شہر جا پہنچا جو اب شہر نہیں رہا، بھول بھلیّاں بن گیا ہے۔وہا ں اتنے فلائی اوور بن گئے ہیں کہ بارہا خیال ہوتا ہے کہ ہم اڑان بھر رہے ہیں۔ ہر جگہ اونچی ہے اور ہر مقام سے نیچے کا نظارہ حیران کرتا ہے۔ جدھر دیکھئے ٹریفک دوڑ رہا ہے، ریل گاڑیاں چل رہی ہیں، کہیں اونچے مچانوں پر اور کہیں زمین کے نیچے۔(پاکستان میں حکام زمین کے نیچے کچھ نہیں بناتے کیونکہ جو ترقی ووٹ ڈالنے والوں کو نظر نہ آئے ، فضول ہے)۔ دلّی شہر اتنا پھیل گیا ہے کہ آس پاس کی بستیوں ہی کونہیں، بڑے شہروں کو بھی ہڑپ کر گیا ہے۔ مثال کے طور پر غازی آباد اب پڑوسی شہر نہیں رہا، نئی دہلی کا محلہ بن گیا ہے جہاں فلیٹوں کے جنگل اُگ آئے ہیں اور کہیں کہیں تو دھوپ بھی مشکل سے آتی ہے۔ کسی نے کسی سے غازی آباد کا راستہ پوچھا۔ جواب ملا کہ بہت آسان ہے۔پوچھا کیونکر؟ بتایا گیا کہ کالے پتھر سے ناک کی سیدھ میں چلے جاؤ ۔اس کالے پتھر کا نام بار بار سنامگر اس کی حقیقت ایک بار بھی معلوم نہیں ہوئی۔

ترقی معلوم ہوتا ہے زمین سے اُبلی پڑ رہی ہے۔ دلّی میرٹھ ہائی وے تعمیر ہورہی ہے، اس کا وہ اہتمام ہے کہ بیان کرنا دشوار ہے۔ کہیں رکاوٹیں کھڑی ہیں اور کہیں راستے بدل دیئے گئے ہیں مگر کام مسلسل جاری ہے جیسے کسی نے قسم کھا لی ہے کہ مکمل کئے بنا نہیں چھوڑے گا۔دلّی اور میرٹھ کے درمیان کے علاقے سے کچھ جذباتی لگائو ہمارا بھی ہے۔ کہتے ہیں اردو زبان کا آغاز اسی علاقے سے ہوا تھا اوراٹھارہ سو ستاون کے جان فروش اسی را ہ سے دارالحکومت کی جانب چلے تھے۔

ہندوستان کے بارے میں یہ کوئی انکشاف نہیں کہ بہت ہی بڑا ہے۔ اتنی بڑی سرزمین پر سڑکوں کا جو جال بچھایا جارہا ہے وہ بھی حیران کرتا ہے ۔ عمدہ تراشی ہوئی راہ پر چلتے جائیے، راہ میں دائیں بائیں جو گاؤں اور قصبے آئیں گے ان سب کی راہ دکھانے والی تختیاں لگی ہیں۔یاد رہے ، ان دیہات اور قصبوں کی تعداد آسمان کے تاروں سے کچھ ہی کم ہوگی۔میں روڑکی سے ٹیکسی میں بیٹھ کر دلّی کی طرف چلا، میری بظاہر تنگ مگر بہت ہی سلیقے سے بنی ہوئی سڑک میری گنگا کی نہر کے کنارے کنارے چلی ۔ نہ ٹریفک کا ہنگامہ اور نہ دیو ہیکل بار بردار ٹرکوں کا شور۔

ہندوستان والوں کو ، خاص طور پر یو پی، پنجاب اورہریانہ والوں کو راہ میں ڈھابے بنانے کے بہت شوق ہے جہاںکھانا ہروقت تیار رہتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بے حد لذیذ ہوتا ہے۔ (اس پر یاد آیا کہ وہیں کہیں ایک ہوٹل ہے جس کا نام ہے ’’گھر جیسا کھانا‘‘)

روڑکی اور دلّی کے درمیان آتے جاتے ایک مقام ایسا پڑ ا جس نے دل پر خراش سی ڈال دی اور وہ تھا شہر مظفر نگر جہاں پورے چھ سال پہلے اِن ہی دنوں خوں ریز ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے۔کتنے لوگ مرے، طے نہیں۔البتہ پچاس ہزار سے زیادہ لوگ دربدر ہوئے۔ابھی چند روز پہلے میں سردھنا میں تھا جہاں بتایا گیا کہ مظفر نگر میں بے گھر ہونے والے کنبوں کے بچوں کی تعلیم کے لئے اسکول کھول دیا گیا ہے۔اس سے زخم پورے نہیں،آدھے ادھورے ہی سہی ، کچھ تو بھر یں گے۔

ساری ترقی اپنی جگہ لیکن شہر دلّی پر آلودگی کی جو چادر پڑی رہتی ہے اس کا کیا بنے گا۔بے پناہ ٹریفک، کارخانے ، فیکٹریاں، چمنیاں، ریل گاڑیاں، بل کھاتے فلائی اوور پر چڑھنے کے لئے زور لگاتے ٹرک ، یہ سب شہر کی فضا میں جو آلودگی گھول رہے ہیں وہ ہر صبح تکلیف دہ منظر پیش کرتی ہے۔معلوم ہوتا ہے پورے شہر کو ایک چادر نے ڈھانپ رکھا ہے۔اس طر ح کی کثافت سانس کے مریضوں کا جینا دشوار کردیتی ہے۔ مجھے شہر کے ایک بہت ہی بڑے ہوٹل میں جانے کا اتفاق ہوا جس میں دنیا بھر کے صاحب حیثیت مہمان ٹھہرتے ہیں۔ وہا ں کی بڑی خوبی یہ تھی کہ کمروں میں آلودگی سے پاک صاف ہوا چھان پھٹک کر فراہم کی جارہی تھی۔

ستمبر شروع ہوچکا تھا اور دلّی میں آگ برس رہی تھی۔میرے دوست عبید صدیقی نے تجویز پیش کی کہ چل کر ہمایوں کا مقبرہ دیکھ لیا جائے جسے آغا خان نے بڑا پیسہ لگا کر ویسا ہی کردیا ہے جیسا وہ سنہ پندرہ سو ستر میں بن کر تیار ہوا تھا۔ اس عمل میں بڑی تحقیق کی گئی اور عمارت سازی کا وہ سارا مال مسالہ تیار کیا گیاجو قدیم ماہروں نے بنایا تھا۔ اسے دیکھنے کے اشتیاق میں ہم مقبر ے کے احاطے میں جا پہنچے۔اس وقت آسمان سے برسنے والی تمازت کا یہ عالم تھا کہ مقبر ے کو دور ہی کھڑے دیکھتے رہے، چل کر وہاں تک جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔پھر بھی، ان لوگوں کو دل ہی دل میں داد دی جو تاریخ کی ان نشانیوں کو مٹنے سے بچارہے ہیں ورنہ ہمایوں کے مقبرے کے گرد لوگوں نے بازار لگارکھے تھے اور پختہ میلے لگا دئیے تھے۔ان سب کو بڑے جتن کرکے اکھاڑا گیا اور مقبرے کے گرد ویسے ہی باغ لگا دئیے گئے جیسے ہمایوں کی بیوہ بیگا بیگم نے لگوائے ہوں گے۔

مگر مسلمانوں کا بھی جواب نہیں۔ کچھ عرصہ ہوا خبر آئی تھی کہ دلّی کے مسلمانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ہمایوں کے مقبرے کی جگہ شہر کے مسلمانوں کا قبرستان قائم کیا جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ شہر کے قبرستان کھچا کھچ بھر گئے ہیں یہاں تک کہ نواح کے قبرستانوں میں بھی تل دھرنے کو جگہ نہیں، اس کا حل یہ ہے کہ کبھی کے مرجانے والے بادشاہ کو رخصت کیا جائے اور آج کے زندہ لوگوں کو شہر کے اندر دفن کی جگہ مہیا کی جائے۔میںسوچتا ہوں کہ جیسے کار پارکنگ کے لئے کئی کئی منزلہ عمارتیں بنائی جاتی ہیں، ویسے ہی ملٹی فلور قبرستان بنا دئیے جائیں۔مکہ مدینے میں قبرستان کھچا کھچ کیوں نہیں بھر گئے؟

اس پر یاد آیا، ابھی ابھی روڑکی سے آیا ہوں۔ وہاں محلہ سوت میں قدیم تکیہ ہوا کرتا تھا جس میں کسی بزرگ کا مقبرہ تھا جس کے اطراف قبریں ہی قبریں تھیں۔ میں دیکھ نہیں پایا لیکن لوگوں نے بتایا کہ وہ سارے مرحومین کی آخری نشانی صفحہ ہستی سے مٹا کر اس جگہ زندہ لوگ آباد کر دئیے گئے ہیں۔اس کا مطلب ہے وہ لکڑی کی ٹال بھی گئی اور چمن شاہ کی وہ کٹیا بھی جس کے گرد انہوں نے پھلواری لگا رکھی تھی ؛ وہیں وہ لمبا سا کالا کرتہ پہنے، ہاتھوں میں کڑے اور گلے میں کنٹھے ڈالے عبادت کیا کرتے تھے اور ہمارے گھر ٹال سے آنے والی لکڑی بھی وہی آکر چیرتے تھے۔اچھی بھلی دنیا کو لوگ کیوں بدل ڈالتے ہیں؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین