ہمارے اس غریب ملک میں دو سال سے زیادہ ایک ڈرامہ رچایا گیا بڑے بڑے دعوے کئے گئے، حکومت کی جانب سے حکمرانوں کی جانب سے اور مخالف پارٹی کی جانب سے بھی۔ خدا جانے اس تماشہ پر کتنے کروڑ روپیہ خرچ کیا گیا۔ میں یہ تمہید مشرف کی بے عزتی سے ملک سے روانگی کے بارے میں کچھ لکھنے کیلئے باندھ رہا ہوں۔
ملک کے مشہور دفاعی تجزیہ نگار جناب اکرام سہگل نے مشرف کو ہمیشہ جی ٹی روڈ جنرل کے نام سے منسوب کیا ہے۔ یہ نام اس وجہ سے کہ اپنے دور ملازمت میں اس خود ساختہ کمانڈو نے کبھی کسی جنگ میں حصّہ نہیں لیا کبھی دشمن پر ایک گولی نہیں چلائی اور کبھی دشمن کی ایک گولی کا سامنا نہیں کیا۔ لیکن قدرت کا نظام دیکھئے اور نظام کی کمزوری (اور اقربا پروری) کہ ایسا شخص ہمارا سپہ سالار بن گیا۔ اس سے پیشتر ملک کو یحییٰ خان کی شکل میں بھی ایسا ہی سپہ سالار ملا تھا جس نے ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرادیئے اور اس جی ٹی روڈ جنرل نے ہمیں دہشت گردی اور تباہی کے سمندر میں پھینک دیا۔ جس قدر نقصان ملک کو اس شخص نے پہنچایا وہ کسی اور شخص نے نہیں پہنچایا۔ اس نے قوم کو تقسیم کردیا۔ ہم ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوگئے۔ وہ ادارہ جس کی سب بے حد عزّت و احترام کرتے تھے اس کو دشمن تصوّر کیا جانے لگا، اس پر حملے ہونے لگے اور نوجوان بہادروں نے دشمن کے ہاتھوں نہیں اپنے ہی ہم وطنوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔ یہ سب کچھ صرف ایک ٹیلیفون کے نتیجے میں کہ ہمارا ساتھ دو ورنہ نقصان اُٹھائو گے۔ قوم سے جھوٹ بولا گیا کہ اگر ہم غلامی قبول نہ کرتے تو ہندوستان ان کا ساتھ دیتا۔ آپ بتلائیے کہ کیا ہندوستان کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے؟ اگر انہیں کسی پر دبائو ڈالنا تھا تو ایران سب سے مناسب ملک تھا۔ اس کی طویل سرحد افغانستان سے ملی ہوئی تھی اور بندرعباس سے تو افغانستان تک بہترین شاہراہ موجود تھی مگر ایران میں ضمیر فروش، غدّار حکمراں نہیں بیٹھے تھے۔ امریکیوں کو علم تھا یہ نام نہاد کمانڈو ایک فون پر گھٹنے ٹیک دے گا اور ہمارا غلام بن جائے گا۔ امریکیوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ اس نے ان کو وہ مراعات بھی دیدیں جن کی انھوں نے درخواست نہیں کی تھی۔ 2001ءمیں یہ غیرقانونی غاصب و ڈکٹیٹر تھا اور مغربی دنیا میں اس کو ناپسندیدہ شخص تصور کیا جاتا تھا اس نے امریکیوں کی غلامی قبول کرکے ان کی خوشنودی حاصل کرلی، فوجی اڈے دیدیئے جس کی ایئرچیف مارشل مصحف علی میر نے سخت مخالفت کی تھی اور واللہ اعلم کہ ان کی شہادت میں کچھ گڑبڑ تو نہ تھی۔ اس شخص نے ہمارے ملک اور عوام پر ڈرون حملوں کی اجازت دی۔
اپنے آپ کو کمانڈو اور بہادر کہنے والا یہ شخص نہایت بزدل ہے۔ آپ نے دیکھا کہ دو سال میں جب بھی عدالت میں حاضری کا سمن آیا فوراً بستر پر لیٹ گیا، جعلی میڈیکل سرٹیفیکٹ بنوائے اور حاضر نہ ہوا۔ روز بہادری کے اور نہ ڈرنے کی بونگیں مارتا تھا۔ پھر یہ کمر کے درد کا بہانہ اور ڈاکٹروں کی کم ظرفی کے جھوٹے سرٹیفکیٹ دیتا کہ اس کا علاج ملک میں ممکن نہیں۔ میری اپنی کمر میں چند سال پیشتر بہت تکلیف تھی اور میں چلنے پھرنے سے معذور ہوگیا تھا۔ میں نے یا میرے گھر والوں نے تو کبھی درخواست نہیں دی کہ باہر علاج کرادیں۔ پمز کے نیورولوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ جو کیمبرج یونیورسٹی کے تعلیمیافتہ ہیں اور ان کی بیگم نے ہمارے ادارے کے اسپتال میں نہایت مہارت سے چار گھنٹہ میرا آپریشن کیا اور میں بفضل خدا بالکل ٹھیک ہوں۔ دونوں ہمارے نہایت عزیز دوست ہیں۔ دوسرا کیس میرے عزیز دوست سعیدمحمد خان کا ہے ان کی کمر میں بھی درد تھا اور چلنا مشکل تھا، کراچی میں نجی اسپتال میں انھوں نے آپریشن کرایا اور ماشاء اللہ بالکل فٹ ہیں۔ مشرف کو ملک سے بھاگنے کا بہانہ چاہئے تھا اور اب کبھی واپس نہیں آئے گا اور انتظار کرے گا کہ حالات حق میں ہوجائیں تو پھر واپس آ جائے۔ اسکے خلاف کیس میں بدقسمتی سے کسی نے بھی کچھ اچھا رول ادا نہیں کیا۔ ایک ملزم جس پر غدّاری کا مقدمہ تھا وہ دو سال بھول بھلیاں کھیلتا رہا اور مسکراتارہا اور سگار پیتا چلا گیا۔ اس کے بنگلے کو ضمنی جیل قرار دے کر وہاں چند سنوائیاں کی جاتیں اور اس کو سزا دی جاتی بعد میں اگر صدر معاف کردیتے تو دوسری بات تھی مگر اس کو اپنے جرم کی سزا ضرور ملنی چاہئے تھی۔ یہ ایک بہت ہی غلط اور خطرناک مثال قائم کردی گئی ہے۔
میرا مشرف سے رابطہ اس وقت ہوا جب یہ منگلا کا کور کمانڈر تھا۔ ہمارے ملائیشیا سے بہت ہی قریبی تعلقات تھے اور بوسنیا کی جنگ کے دوران انھوں نے ہمارے ذریعہ ان کی مدد کی تھی۔ میں نے خود 200 اینٹی ٹینک (بکتر شکن) میزائلز دیئے تھے اور ایک ہزار راکٹ اور پی او ایف نے بہت سے ہتھیار دیئے تھے جن کی مدد سے وہ جارحیت کا مقابلہ کرسکے اور آزاد ہوئے۔ ملائیشیاکے سیکرٹری جنرل وزارت خارجہ اور چیف آف ملٹری انٹیلی جینس ہمارے پاس آیا کرتے تھے میرے ساتھ ٹھہرتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کے ساتھ ایک صاحب بھی آئے اور باتوں باتوں میں انھوں نے کہا کہ جب میں لندن میں تھا تو میرے ساتھ ایک مشرف ہوا کرتا تھا خدا جانے وہ کہاں ہے۔ مجھے علم تھا کہ یہ منگلا میں ہے۔ میں نے اس کو فون کیا اور یہ فوراً اسی شام ہمارے گیسٹ ہائوس ان سے ملنے پہنچ گیا۔ بعد میں جب 6 اپریل 1998 کو ہم ملک کی سب سے پہلی لمبی مار کی بیلسٹک میزائل غوری کا تجربہ ٹلاسے کررہے تھے مجھے علم تھا کہ یہ علاقہ منگلا کور کمانڈر کے تحت تھا میں نے خوش اخلاقی سے اس کو فون کرکے دعوت دیدی۔ اس وقت جنرل ذوالفقار علی خان ،آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کے ساتھ لیزاں (رابطہ) رکھتے تھے اور وہاں ہمارے ساتھ موجود تھے ان کی مرضی نہ تھی کہ میں مشرف کو بلائوں۔ جب میں نے مشرف کو دعوت دی تو ڈرتے ڈرتے بولا کہ چیف کو علم نہیں ہے کہیں وہ ناراض نہ ہوں۔ میں نے کہا میں ان کو بتلادونگا اور میں نے ان کو مطلع کردیا۔ 6 اپریل کی صبح مشرف ہیلی کاپٹر کے ذریعے ٹِلّا پہنچا۔ ہم وہاں چھوٹی عمارت کی چھت پر بیٹھے، میرے ساتھ میرے ساتھی جنرل چوہان میرا داماد سعد علی خان (ولد شہید میجر اسد علی خان) اور رفقائے کار تھے۔ مشرف جب وہاں آیا توجس حالت میں انہیں دیکھا ، میں نے ترش لہجے میں کہا کہ یہ مُبارک موقع ہے آپ کو اس کا لحاظ کرنا چاہئے تھا میں نے تو ازراہ خوش اخلاقی دعوت دی تھی۔ اس کو یہ بات ناگوار گزری اور یہ کبھی نہیں بھولا۔ آرمی چیف بنکر اس نے میرے خلاف مہم چلائی۔ پہلے اپنے دفتر میں جنرل ذوالفقار اور برگیڈیر خالد قدوائی (بعد میں لیفٹیننٹ جنرل اور ڈی جی ، ایس پی ڈی) کے سامنے مجھ پر رعب جمانے لگا کہ ہم پیسے اُڑاتے ہیں اور آڈٹ نہیں ہوتا وغیرہ اور یہ کہ ہم لوگ بتائے بغیر باہر چلے جاتے ہیں۔ میں نے سختی سے اس کی تردید کی کہ پہلے دن سے ہم تحریری طور پر ہر دورے کی اطلاع دیتے رہے ہیں، وجہ، دورانیہ اور کس کام سے جانا ہے وغیرہ سب بتلاتے رہے ہیں۔ دوئم یہ کہ پہلے دن سے وزارت خزانہ کا سیکرٹری کے رُتبہ کا اَفسر ہمارا ممبر فنانس رہا ہے اور وہ وزیر خزانہ کو جوابدہ ہے۔ آجتک ہمارے یہاں ایک روپیہ کی بے ایمانی نہیں ہوئی ہے اور کسی اکائونٹ میں میرے دستخط نہیں ہیں۔ حقیقت یہ تھی کہ ہمارا بجٹ کبھی 20 ملین ڈالر سے زیادہ نہ تھا، ان میں تنخواہیں، ٹرانسپورٹ، مکانات کا کرایہ، میڈیکل ، مقامی اور بیرونی ممالک کے سامان کی دستیابی وغیرہ سب شامل تھے۔ جب جنرل اسلم بیگ آرمی چیف بنے تھے اور بورڈ کے ممبر تھے تو انھیں خود بے حد تعجب ہوا تھا کہ ہمارا بجٹ اتنا کم ہے۔ میں نے دو ارب ڈالر کی ٹیکنالوجی کوڑی کے داموں دیدی تھی۔ میرا کنٹریکٹ 31 مارچ 2001 کو ختم ہورہا تھا مشرف نے مارچ کے وسط میں اعلان کردیا کہ میں اور میرا ساتھی 31 مارچ کو ریٹائر ہوجائینگے۔ جومجھ سے 6 سال زیادہ عمر کے تھے۔ بہرحال 27 مارچ کو مشرف نے ایوان صدر میں ہمیں الوداعی ڈنر دیا۔ تمام معزز ہستیاں وہاں موجود تھیں۔ میری بائیں جانب مرحوم ایئر چیف مارشل مصحف علی میر تھے، فرشتہ خصلت محب وطن اور بہادر انسان تھے۔ مشرف نے تقریر کی تو میری تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے۔ وہ تقریر میں نے کالموں میں تحریر کی ہے۔ جب یہ تقریر کررہا تھا تو مصحف میر صاحب نے میرا ہاتھ دبایا اور کہا ڈاکٹر اس کو جواب دینے کی ہرگز زحمت نہ کرنا یہ اس قابل نہیں ہے۔ میں نے کہا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے اور رسومات کے قطعی برعکس میں نے نہ ہی کھڑے ہوکر شکریہ ادا کیا یا جواب دیا۔ اس بات نے یقینا اس کے مرچیں لگادیں۔