اندرون سندھ کے دیہی و شہری علاقوں میں صدیوں سے رائج کارو کاری جیسی قبیح رسم اب بھی جاری ہے ،جس کا بین ثبوت چند روز قبل ڈگری میں’’ ناموسی قتل ‘‘کا واقعہ ہے، جس میں ایک نوجوان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔اکتوبر 2016ء میں بے گناہ افراد کو کاری قرار دے کر قتل کے واقعات کی روک تھام کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل منظور کیا گیا تھا جسے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پیش کیا تھا۔بل کی منظوری کے بعد سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اس پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی تھی، لیکن اس قانون سازی کا بھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔
آج بھی ناموسی قتل کا سلسلہ جاری ہے۔اکیسوی صدی کے ترقی یافتہ دور اور سائنس و ٹیکنالوجی کے زمانے میں داخل ہونے کے باوجود ہمارا معاشرہ ،قرونِ وسطیٰ کے جاگیردارانہ اور فرسودہ سرداری نظام کے تابع دکھائی دیتا ہے۔اندرون سندھ میں سرداروں اور جاگیرداروں کے مرتب کیے ہوئے قوانین ملکی قوانین پر حاوی ہیں۔ مقدمات کے فیصلے جرگوں میں کیے جاتے ہیں ، جن کے سردار اتنے بااختیار ہوتے ہیں کہ مبینہ مجرموں کو قتل کی سزا دینے کے بعد ان کی لاشوںکو بھی نہیں بخشتے۔
انہیں بغیر تجہیز و تکفین کے ایک گڑھے میں پھینک کر اوپر سے مٹی ڈال کربند کردیا جاتا ہے۔ضلع گھوٹکی کی تحصیل ڈہرکی کے ایک نواحی علاقے میں’’فتو شاہ‘‘نامی قبرستا ن واقع ہے جسے’’ کاریوں کا قبرستان‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اس میں غیرت کے نام پر قتل کیے جانے والے افراد کو بغیر تجہیز و تکفین کے دفنایا جاتا ہے۔
ڈگری کے نواحی علاقے پرانا دمبالو کےقریب نوجوان ارباب ولد محمد ابراہیم احمدانی نے اپنے کزن اور بہن کو ناجائزتعلقات کے شبہ میں فائرنگ کردی جس سے ناظم ولد محمد عیسٰی احمدانی موقع پرہلاک ہوگیا جب کہ اس کی بہن شمائلہ زوجہ علی وارث شدید زخمی ہوگئی۔ زخمی خاتون کو فوری طور پر تعلقہ اسپتال ڈگری پہنچایا گیا، جہاں ابتدائی طبی امداد کے بعد اسے تشویش ناک حالت کے باعث حیدرآبادکے اسپتال منتقل کردیا گیا جہاں اس کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔
مقتول ناظم احمدانی کے بھائی اعظم احمدانی کے مطابق اس کے کزن ارباب نے کارو کاری کا جھوٹا الزام لگا کر میرے بھائی کو قتل کیا ہے ۔اعظم کے مطابق متوفی نوری آباد میں پولٹری فارم پر مزدوری کرتا تھا، اوروہ دوروز قبل ہی گھر واپس آیا تھا۔مقتول کے بھائی کے مطابق ملزم نے ہمارے گھر میں داخل ہو کر میرے بھائی پر فائرنگ کی ۔پولیس نے لاش کو تعلقہ ہسپتال ڈگری پہنچایا۔جہاں سے پوسٹ مارٹم کے بعد اسے ورثاء کے حوالے کردیا گیا ۔پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات کے دوران قتل کا یہ واقعہ کارو کاری کا ہی شاخسانہ لگتا ہے ۔
واقعہ کے بعد ملزم جائے واردات سے فرار ہوگیا تھا، جسے پولیس نے مختلف مقامات پر چھاپے مارنے کےبعد واردات میںاستعمال ہونے والے اسلحہ سمیت گرفتار کرلیا۔ ایس ایس پی ضلع میرپورخاص، جاوید بلوچ واقعہ کی اطلاع ملنے پر فوری طور پر ڈگری تھانہ پہنچ گئے اور ڈگری پولیس کو واقعہ کی تحقیقات مکمل کرکے فوری رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔گرفتاری کے بعدملزم ارباب نے دوران تفتیش اپنے جرم کا اعتراف کر لیا۔ ملزم کے خلاف تھانہ ڈگری میں قتل کا مقدمہ نمبر 2019۔/101۔ زیر دفعہ 302,324,311 تعزیرات پاکستان کے تحت درج کر لیا گیا ہے۔
رینجرز کا ایک اہلکار ٹریفک حادثے کا شکار ہوکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ تفصیلات کے مطابق رینجرز کا حوالدارسجاد حسین بھٹی اپنی موت سے ایک روز قبل ہی چھٹی پر ڈگری کے نزدیک گائوں میں اپنے گھر آیا تھا۔ اواسے اگلے روز ڈیوٹی پر واپس کراچی واپس جانا تھا۔وقوعے والے روز وہ اپنے کزن جانی خان بھٹی ولدعلی بخش بھٹی کے ساتھ شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے موٹر سائیکل پر جارہا تھا کہ حادثے کا شکار ہوگیا۔
حادثے میں رینجرز اہل کار موقع پر ہلاک ہوگیا جب کہ اس کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار دوسرا شخص جانی خان بھٹی شدید زخمی ہوگیا جسے ڈگری کے تعلقہ اسپتال لایا گیا لیکن تشویش ناک حالت کے باعث اسے حیدرآباد منتقل کردیا گیا۔ ڈگری پولیس نے ڈرائیور کو کار سمیت حراست میں لے لیا،۔ کار ڈرائیور عبدالرئوف قائم خانی کا تعلق جھڈو سے بتایا جاتا ہے۔