• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت محمدﷺ کی آفاقی اور دائمی نبوت

تحریر:محمد شریف بقا ۔۔۔ لندن
ہادی اعظم اور عظیم ترین محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے تمام ادوار کے انسانوں کیلئے اپنا رسول بناکر بھیجا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔ (سورہ سبا) ’’اور اے نبیؐ! ہم نے تم کو سب انسانوں کیلئے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ اس بات کا علم نہیں رکھتے‘‘۔ چونکہ قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کی ابدی کتاب ہے، اس لیے اس کی یہ آیت بھی اپنے اندر دوام کی صفت رکھتی ہے۔ اس لحاظ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت بھی دائمی ہے۔ ان کے بعد اب کسی نبی اور رسول کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ علاوہ ازیں کلمہ طیبہ ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کا مطلب یہ ہے۔ ’’اللہ کے علاوہ کوئی معبود (حقیقی) نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں‘‘۔ جس طرح اللہ کے بارے میں عقیدہ توحید دائمی اہمیت کا حامل ہے، اسی طرح حضرت محمدﷺ بھی ہمیشہ کے لیے اللہ کے رسول ہیں۔ ہم ان الفاظ کا یہ ترجمہ نہیں کیا کرتے کہ اللہ تو ایک ہے اور محمدﷺ اللہ کے رسول تھے، بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔سید المرسلین حضرت محمدﷺ نے اپنی نبوت و رسالت کی آفاقی اور دائمی اہمیت کے بارے میں جو مندرجہ ذیل کلمات ارشاد فرمائے تھے وہ بے حد حقیقت کشا اور واضح ہیں۔ ان کا ارشاد گرامی ملاحظہ ہو۔ وہ تمام ممالک اور زمانوں کے انسانوں کو یوں خطاب کرتے ہیں۔ (سورہ اعراف) (اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔) یہ لوگوں میں ہر دور کے انسان شامل ہیں۔رسول کریمﷺ کی نبوت کسی ایک دور یا کسی ایک گروہ انسانی تک محدود نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کو رحمۃ اللعالمین بناکر بھیجا تھا۔ اب قیامت تک نبی کریمﷺ کی نبوت کی حکمرانی رہے گی۔ اب کسی اور نبی یا رسول کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے اس قول میں دو اہم امور… رسالت محمدیؐ کے الہامی سرچشمے کی قدامت اور ان کے الہام کی جدید اور ابدی حیثیت کو بیان کیا ہے۔ انہوں نے رسول خدا کی ذات گرامی کو قدیم اور جدید دنیائوں کے درمیان ایک مقام اتصال قرار دیتے ہوئے ان کی رسالت و نبوت کی ہمہ گیر اہمیت اور عظمت کی طرف واضح اشارہ کیا ہے۔ مفکر اسلام علامہ اقبالؒ کے خیال میں پیغمبر اسلام اپنے الہام کے سرچشمے کی بدولت قدیم دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہادی اعظمﷺ اپنے الہام کی بدولت قدیم دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس طرح ہادی اعظم ﷺنے دوسرے انبیا و رسل کی طرح خدا کی طرف سے الہام و وحی کے ذریعے پیغام ہدایت حاصل کرکے لوگوں کو توحید کا انقلاب آفریں درس دیا تھا۔ سابقہ انبیائے کرام بھی اپنے اپنے زمانے کے لوگوں کو توحید کا پیغام سناتے رہے تھے۔وحی و الہام کا یہ اشتراک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گزرے ہوئے نبیوں سے ملا دیتا ہے۔ اس زاویہ نگاہ سے ان کے الہام کا سرچشمہ بھی وہی تھا جہاں سے سابقہ انبیائے کرام فیض ربانی حاصل کرتے رہے تھے۔ یہ تو نبوت محمدیﷺکا ایک پہلو ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ختم نبوت نے رسول کریم ﷺکے پیغام اور سیرت طیبہ کی ابدیت اور آفاقیت کی مہر ثبت کردی ہے۔ اب موجودہ دور ہو یا آنے والے ادوار ان سب میں رسالت محمدیﷺ آخری سند کا درجہ رکھے گی جس طرح محسن انسانیت حضرت محمدﷺ کی نبوت آخری ہے۔ اسی طرح قرآن حکیم بھی تمام انسانوں کے لیے آخری کتاب ہدایت کی حیثیت کا حامل ہے۔ علامہ اقبال نے اس امر کی وضاحت اس طرح کی ہے’’ہم نے دین فطرت (اسلام) نبیﷺ سے سیکھا ہے اور ہم نے حق کی راہ پر مشعل جلا دی ہے۔ پس خدا نے ہم پر شریعت بھی ختم کردی ہے اور اس نے ہمارے رسولﷺ پر رسالت کا بھی خاتمہ کردیا ہے۔ زمانے کی محفل کی رونق ہماری وجہ سے ہے۔ حضورﷺ پر رسالت کا بھی خاتمہ کردیا ہے، اس لیے ہم بھی آخری امت ہیں۔ اب ساقی گری (اشاعت اسلام) کی خدمت ہمیں سونپی گئی ہے اور اس طرح انہوں نے ہمیں یہ آخری جام (تبلیغ و اشاعت) دے دیا ہے‘‘۔
ختم نبوت کے عقیدے کی علمی اور ثقافتی قدرو منزلت یہ ہے کہ اب کوئی شخص بھی وحی و الہام کے پردے میں ہم پر اپنی ذاتی رائے نہیں ٹھونس سکتا۔ انسانیت جب عہد طفولیت میں تھی تو اس وقت وہ بچے کی مانند نبوت کی انگلی پکڑ کر چلنے پر مجبور تھی کیونکہ انبیائے کرام ہی لوگوں کو صحیح راہ حیات اور ذریعہ نجات سے آگاہ کرسکتے تھے لیکن انسانیت جب بلوغت کے مرحلے میں داخل ہوئی تو اسے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی تلقین کی گئی۔ نبی اکرمؐﷺ کی نبوت کی تکمیل دراصل اس بات کی شاہد ہے کہ اب انسانوں کو ان کی نبوت کی روشنی میں اپنے نئے نئے مسائل اور حالات کو اپنی عقلی استعداد کی بدولت سمجھ کر حل کرنا ہوگا۔ اب کوئی انسان وحی و الہام کا سہارا لے کر انسانی عقل و فکر کو اپنا غلام نہیں بناسکتا۔ اسی عقل خداداد سے کام لے کر مسلمانوں نے نئے نئے علوم کے باب کھولے اور استقرائی عقل کی افادیت کو ظاہر کیا۔ علامہ اقبالؒ رسالت محمدیہؐ کے چند پہلوئوں پر یوں اظہار خیال کرتے ہیں۔’’اس نے انسان کے جسم میں نئی زندگی پیدا کردی اور غلاموں کو ان کے آقائوں سے خرید لیا‘‘ (یعنی آزادی دلائی) وہ اسی موضوع کو جاری رکھتے ہوئے نبوت و رسالت کے دیگر انسانیت ساز اور حریت بخش پہلوئوں کے بارے میں اپنے خیالات کا ان الفاظ میں اظہار کرتے ہیں۔
’’نبی اکرمؐﷺ کی ولادت قدیم دنیا کی موت تھی۔ یہ (دراصل) آتش کدے، مندر اور بتوں کی مرگ تھی۔ ان کے پاک ضمیر سے حریت پیدا ہوئی، گویا یہ لذید شراب ان کے انگور سے ٹپکی تھی۔ جدید دور جس نے اب سیکڑوں چراغ جلا رکھے ہیں، اس نے حضورؐﷺ کی آغوش میں اپنی آنکھ کھولی تھی۔ اس طرح آپؐ نے صفحہ ہستی پر نئے نقوش بنائے اور انہوں نے ایک عالمگیر امت (امت مسلمہ) کو پیدا کیا تھا‘‘(رموز بیخودی، کلیات اقبالؒ، 104)۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول کریمؐﷺ کی بعثت نے مجبور و محکوم انسان کو کئی چھوٹے چھوٹے خدائوں اور آقائوں کی غلامی سے نجات دلاکر خدائے واحد کا پرستار بنایا اور قدیم باطل نظریات کے خرمن کو جلاکر راکھ کردیا ہے۔ جب ان کی نبوت کے طفیل انسان کو آزادی فکر نصیب ہوئی تو مسلمانوں نے علمی کمالات کے فیضان سے دوسری قوموں کو بھی متمتع کیا۔ جدید دور کی ذہنی بیداری اور فکری آزادی اصل میں ہادی اعظمﷺ کی نبوت و رسالت کا فیض ہی تو ہے اس طرح زمانہ تاریک کے گمراہ کن نقوش یا مٹاکر زندگی کی راہ کو رشک کہکشاں بنادیا گیا اور ایک عالمگیر امت مومن وجود میں آگئی۔ علامہ اقبالؒ کے ان ولولہ انگیز اور حقیقت کشا اشعار سے عشق رسولؐﷺ کی فکر کی شدت کا بھی پتہ چلتا ہے۔
تازہ ترین