• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت نے دہلی کی اسموگ لاہور کی طرف منتقل کرنے اور اِسے ماحولیاتی اعتبار سے بدترین شہر کے طور پر پیش کرنے کی شرارت کی ہے، مگر اس فریب کا پردہ جلدی چاک ہو گیا اور ایک دنیا جان چکی ہے کہ نریندر مودی سرکار پاکستان کے بارے میں پاگل پن کا شکار ہو گئی ہے اور فریب کاری کی انتہائی نچلی سطح پر اُتر آئی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب چھوٹے ذہن کے لوگ برسرِ اقتدار آتے ہیں، تو انسانیت کے لیے بہت بڑا خطرہ بن جاتے ہیں۔ بی جے پی حکومت کی تنگ دِلی اور خبثِ باطن کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارت خود ٹوٹ پھوٹ کے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے بعد ناگالینڈ نے بھی بھارت سے آزادی کا اعلان کر دیا ہے اور اِنسان کے اندر فطرت نے جبر کے خلاف مزاحمت کا جو زبردست جذبہ ودیعت کیا ہے، وہ مختلف صورتوں میں اپنا اظہار کرنے لگا ہے۔ جس دیس میں گاندھی جی کے قاتل نتھورام کو ہیرو کا درجہ دیا جائے، وہ دیس اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکے گا۔ بھارت کے صحیح الخیال طبقے اِس اُبھرتی ہوئی خطرناک صورتِ حال کے خلاف آواز اُٹھا رہے ہیں۔ اُن کی تحریریں اور تقریریں دِلوں میں اُترتی جا رہی ہیں لیکن سوسائٹی کا بڑا حصہ جھوٹی عظمت کے نشے میں دھت ہے اور پورے ایشیا پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے لیکن جب آنکھیں دیکھنا، کان سننا اور دِل و دماغ سوچنا اور محسوس کرنا بند کر دیں تو گھمنڈ کی عمارت دھڑام سے نیچے گرتی ہے اور اِس کا نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ تاریخ کے گُرز سے فرعونوں اور شدادوں کو ریزہ ریزہ کر ڈالنے کا وقت قریب آ پہنچا ہے۔

پاکستان اِن دنوں سیاسی اسموگ کی زد میں ہے جو لحظہ بہ لحظہ گہری ہوتی جا رہی ہے۔ ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب کچھ سجھائی دے گا نہ وقت کی آہٹ سنائی دے گی۔ ہمارے سنگ دلانہ رویوں سے بل کھاتا ہوا وقت ہمارے چاروں طرف بےاطمینانی اور شدید اضطراب کا ایک حصار کھینچ رہا ہے۔ معاشرہ اپنے تضادات میں جل رہا ہے جبکہ عوام اور حکمران ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر آمریت قائم کی جا رہی ہے اور تمام طاقتوں کے ایک صفحے پر آ جانے سے نظمِ مملکت کا توازن درہم برہم ہے۔ اِس حقیقت کو مولانا فضل الرحمٰن نے ’آزادی مارچ‘ میں پوری طرح اُجاگر کیا ہے۔ یہ وہ کام ہے جسے سرانجام دینے کے لیے بڑی بڑی سیاسی جماعتیں تیار نہیں تھیں۔ جناب نواز شریف نے مختلف مراحل میں سویلین بالادستی کا نعرہ بلند کیا اور اِس کی پاداش میں بڑی بڑی صعوبتیں برداشت کیں اور اُن کے مزاج آشنا اُنہیں ’مردِمزاحمت‘ کا لقب بھی دے چکے ہیں، مگر وہ’’ جعلی انتخابات، جعلی پارلیمان اور جعلی حکومت‘‘ کے خلاف عوام کی طاقت کا اِس طرح مظاہرہ نہیں کر سکے جو ہم آج مولانا کی قیادت میں دیکھ رہے ہیں۔ اب وزیرِاعظم عمران خان کا استعفیٰ کوئی اہمیت نہیں رکھتا، کیونکہ اُن کی حکومت کی چُولیں ڈھیلی ہو چکی ہیں اور اُن کا سیاسی جرم قوم کے سامنے آ گیا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کا موقف یہ ہے کہ عمران خان عوام کے بجائے دوسری طاقتوں کی مدد سے اقتدار میں آئے ہیں۔ وہ اپنے موقف کی تائید میں یہ شہادت پیش کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں اِس حقیقت کا اعتراف کیا تھا کہ انتخابی نتائج پر مشتمل فارم 45پر پولنگ ایجنٹس کے دستخط نہیں تھے جبکہ الیکشن ایکٹ 2017کی رُو سے اُن کے دستخط لازمی قرار دیئے گئے تھے۔ فارم 45پر پولنگ ایجنٹوں کے دستخط نہ ہونے کا واضح مطلب یہی ہے کہ اُن کی غیر موجودگی میں انتخابی نتائج تیار کیے گئے تھے۔ اپوزیشن جماعتوں نے بھی یہی الزام لگایا تھا کہ پولنگ بند ہو جانے کے بعد پولنگ ایجنٹس باہر نکال دیے گئے تھے اور انتخابی عملے نے عسکری محافظین کی موجودگی میں انتخابی نتائج مرتب کیے تھے اور بیلٹ پیپرز میں ردوبدل کیا تھا۔ پھر عمران خان صاحب کی اِس گردان سے معاملہ مزید سنگین شکل اختیار کر گیا کہ فوج ہماری پشت پر کھڑی ہے۔ اُن کے اِس غیرمحتاط اور غیر ذمہ دارانہ رویے نے 2018کے انتخابات کو متنازع بنا دیا اور غیرسیاسی ادارے بھی اِس کی زد میں آ گئے۔

اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کا یہ طرزِ عمل قابلِ ستائش ہے کہ اُنہوں نے دھرنے کی حمایت نہیں کی اور مولانا فضل الرحمٰن نے اُن کی رائے کا بہت احترام کیا۔ دراصل وہ خود بھی تصادم کی سیاست کے حق میں نہیں اور اُن کا یہ کارنامہ بلاشبہ بہت قابلِ قدر ہے کہ اُنہوں نے دینی مدارس سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے نوجوانوں کو فرقہ پرستی سے بلند رکھا ہے اور اُن کے اندر میانہ روی کو فروغ دیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام سے وابستہ لوگ بہت متوازن ذہن کے مالک ہیں اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ مولانا نے سیاسی جمود توڑ ڈالا ہے اور جمہوری قوتوں کو بہت حوصلہ دیا ہے۔ اب حکومت کو ایک سال کے اندر اندر انتخابات کرانا ہوں گے اور اپوزیشن کی مشاورت سے ایسی انتخابی اصلاحات نافذ کرنا ہوں گی جو شفاف انتخابات کی ضامن ثابت ہو سکیں۔ اِن اصلاحات میں اِس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ غیرسیاسی اداروں کا انتخابات کے انعقاد میں کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ اِس ضمن میں الیکشن کمیشن کو ہر اعتبار سے ایک خودمختار، باصلاحیت اور کامل غیر جانبدار اِدارہ بنانا ہوگا۔ اِس کی تشکیل نہایت پیچیدہ ہے جسے آئینی ترمیم کے ذریعے آسان اور سقم سے پاک بنانا چاہئے۔ موجودہ حکومت نے دستوری تقاضے پورے کیے بغیر اِس کے دو ارکان مقرر کر دیے جن کا نوٹیفکیشن عدالتِ عالیہ نے معطل کر دیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب حکمرانوں کے لیے آئینی اور قانونی تقاضے نظرانداز کر دینا کچھ سہل نہیں ہو گا، لیکن سیاسی اسموگ کے چھٹ جانے میں کچھ وقت لگے گا کہ ابھی بعض پُراسرار طاقتیں سیاسی فضیلت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں، تاہم عوام کے اندر اپنے جمہوری حقوق حاصل کرنے کی تڑپ بھرپور اظہار کرنے لگی ہے اور عمدہ سیاسی بندوبست کے امکانات روشن ہوتے جا رہے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین