متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفیر غلام دستگیر نے حال میں چارج سنبھالا ہے۔ وہ نہ صرف کمیونٹی کےمسائل کو حل کرنے میں متحرک ہیں،بلکہ پاکستان اور یو اے ای کےسفارتی و معاشی تعلقات کو گہر ا اور مضبوط بنانے میں اہم کردار اور اپنی صلاحتیں اور توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز سفیر پاکستان نے نائب وزیر اعظم اور وزیر برائے صدارتی امور شیخ منصور بن زاید النہیان سے قصرالوطن میں ملاقات کی۔
ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور تعلقات کی صورت حال پر تبادلہ خیال کرتےہوئے انہیں تجارت ،سرمایہ کاری اور ترقیاتی امور میں فروغ دینے پر بات چیت کی۔ وفاقی سپریم کونسل کے وزیراحمد جمعہ الزعبی اور وزارت صدارتی امور کے انڈر سیکرٹری راشد سعید العامری بھی اس موقعے پر موجود تھے۔
سفیر پاکستان غلام دستگیر نے ملاقات کے بعد بتایا کہ پاکستان اور یو اے ای کے درمیان قریبی تعاون اور برادانہ تعلقات میں پاکستان یو اے ای کے ساتھ مستحکم تعلقات کو اہمیت دیتا ہے۔ یو اے ای حکومت پاکستانیوں کو ہر سہولت دےرہی ہے ۔ پاکستانیوں کو ویزہ حاصل کرنےمیں کسی بھی قسم کی دشواری نہیں ہے۔ ہمارے معاشی اور تجارتی تعلقات میں بہت بہتری آ رہی ہے۔
ہرمشکل اور آڑے وقت میں متحدہ عرب امارات نےہمیشہ ہمارا ساتھ دیا ان تعلقات کو مستحکم بنانے میں یہاں مقیم پاکستانیوں کا بھی اہم رول ہے۔ سفیر پاکستان نہ صر ف ابوظہبی بلکہ دبئی اور العین میں بھی پاکستانی نمائندوں سے مل کر ان کےمسائل اورمشکلات حل کر رہے ہیں۔ انہوں نےالعین میں کمیونٹی نمائندوں سے پاکستان اسکول العین کے بارےمیں تفصیلات معلوم کیں اورکمیونٹی کے مسائل حل کرنے کی بھی یقین دہانی کروائی۔
متحدہ عرب امارات، میںملتان اور فیصل آباد کےگردونواح کےعلاقوں سے پاکستانیوں کی بڑی تعداد بسلسلہ روزگار مقیم ہے۔ ان کی خواہش بلکہ حکومت پاکستان سے مطالبہ تھا کہ امارات سے ملتان اور فیصل آباد کے لئے پی آئی اےکی براہ راست پروازیں کا اجراء ہونا چاہیے۔ سفیر پاکستان اور قونصل جنرل احمد امجد علی کی کوششوں سے قومی ایئر لائن نے ملتان اور فیصل آباد کے لیے براہ راست پرواز کا آغاز کر دیا ہے۔
دبئی سے آعاز میں ہفتہ وار دو پروازیں آپریشن شروع کریں گے۔ افتتاحی پرواز کے موقعے پر جمال الحی ڈپٹی سی ای او دبئی ایئر پورٹس سفیر پاکستان غلام دستگیر، قونصل جنرل احمد امجد علی، اور پی آئی اے کے اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ اس موقعے پر بتایا کہ پاکستان مسافروں کی تعداد کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک ہے۔
پاکستان کے 8 مقامات کے لیے یو اے ای سے ہفتہ وار 268 پروازیں آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سفیر پاکستان نے مزید کہا کہ ہمیں قومی ایئر لائن کو ترجیح دینا چاہیے۔ فیصل آباد اور ملتان کے لیے براہ راست پرواز سے وقت کی بچت ہو گی۔
سفیر پاکستان غلام دستگیر نے امارات میں مقیم ممتاز پاکستانی تاجروں سے بھی دبئی میں ملاقات کی۔ پاکستان ایسوسی ایشن دبئی کے پروگرام میں بھی شرکت کر کے اپیل کی کہ پاکستان میڈیکل سینٹردبئی کو مکمل کرنے میں سفارت خانہ اور قونصلیٹ ہر ممکن امداد کرے گی۔ سفیر پاکستان پاکستانی اسکولوں کی حالت اور کارکردگی کو بہتر بنانے میں فکر مند ہیں۔
اس سلسلہ میں کمیونٹی کو جامع حکمت عملی بنانے پر زور دیا۔ انہوں نے پاکستان اسکول مصفع کے بارے میں بتایا کہ اسکول میں محنت کشوں کے 450سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں۔ فنڈز کی کمی کی وجہ سے یہ اسکول بند ہو سکتا ہے ۔ مخیر حضرات کو اس سلسلہ میں آگے آنا چاہیے۔ اگر ہم ان کی مدد نہیں کرتے تو ہمارے 450بچوں کا مستقبل تاریک ہو سکتا ہے۔ہم فیس بھی نہیں بڑھا سکتے۔ اسکول کو چلانے کے لیےسالانہ 22لاکھ درہم کی ضرورت ہے، جبکہ اسکول فیسوں سے صرف 11لاکھ درہم ریونیو جمع ہوتا ہے ۔
ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ عطیات کے ذریعے ہی ہم خسارہ کم کر سکتے ہیں، بلکہ سفارت خانہ بھی ہر ممکن امداد کرنےکے لیے تیار ہے۔ میں نے حکومت پاکستان کو اسلام آباد لکھا ہے کہ وہ اس کے مستقل حل کے لئے آگے آئیں۔ پاکستان اوورسیز فائونڈیشن کو اس اسکول کی مدد کرنا چاہیے یا پھر فیسوں میں اضافہ کرنا ہو گا، جو کہ ناممکن نظر آتا ہے۔ پہلےہمیں ابوظہبی ایجوکیشن و نالج محکمہ کی جانب سے اعتراضات لگائے گئےہیں ۔ انہیں پورا کرنا ہو گا۔ اگر محکمہ تعلیم کی جانب سے دیئے گئےاعتراضات اور دوسری سہولیات کو پورا نہ کیا گیا تو اسکول بند بھی ہو سکتا ہے۔
جہاں ابوظہبی میں مقیم پاکستانی سفیر پاکستان کی جانب سے کی گئی کوششوں کو سراہتے ہیں وہاں وہ یہ بھی سوال کرتےہیں کہ مخیر حضرات کب تک اسکول کو عطیات دے کرچلاتے رہیں گے۔ سفارت خانہ میں کمیونٹی اور تعلیم کے نام پرجوہر پاکستانی سے فنڈ لیا جاتا ہے اور اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن کس مرض کا علاج ہیں۔ لاکھوں پاکستانی ہر سال او پی ایف کو بیرون ملک آتے وقت فیس ادا کرتے ہیں۔ یہ فیس حکومت کہاں خرچ کرتی ہے۔ کیا کبھی یو اے ای میں مقیم 15 لاکھ پاکستانیوں کو او پی ایف کی جانب سے کوئی سہولت دی گئی ہے۔ کاغذوں میں بہت کچھ ہے لیکن عملی طو پر نتیجہ صفر ہے۔
اگر او پی ایف نے کارکردگی دکھانا ہے تو پاکستان اسکول مصفع ابوظہبی کے سلسلے میں آگے آئے اسکول کو مالی امداد فراہم کر کے بند ہونے سے بچایا جائے۔ سفیر پاکستان کو اس سلسلہ میں بھر پور کوشش کرنا ہو گا۔ تاکہ 450 بچوں کا روشن تاریک نہ ہو۔ وہ اپنی تعلیم پاکستانی اسکول میں ہی جاری رکھ سکیں سفیر پاکستان اگر یہ کام کروا گئے توان کا نام یاد رہے گا۔