کشمیر میں جاری بھارتی فوج کی جارحیت اور مودی سرکار کی در اندازی کو دنیا بھر کے ممالک میں مقیم کشمیری اور پاکستانی سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ احتجاجی ریلیاں ، مظاہرے اور کشمیر کاز کے عنوان سے سیمینار اور کانفرنسزبھی منعقد کی جا رہی ہیں ۔کینیڈا ، امریکا ، آسٹریلیا کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک اور گلف میں بھی کشمیری اور پاکستانی مل کر بھارتی حکومت کی کشمیر کے متعلق پالیسیوں کو رد کر رہے ہیں اور کشمیریوں کی آزادی کے لئے بھارت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تناظر میں کشمیریوں کو جینے کا حق دے ۔
دوسری طرف بھارت کے خلاف سکھ بھی میدان میں نکل آئے ہیں جہاں وہ علیحدہ وطن ’خالصتان‘ کی بات کر رہے ہیں وہیں وہ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف کشمیری ، پاکستانی اور دوسری اقوام کے ساتھ مل کر سراپا احتجاج بھی ہیں ۔ سکھ حضرات پنجاب کو آزاد کرانے کے حوالے سے مہم زوروشورسے جاری رکھے ہوئے ہیں اور 2020 میں پنجاب کوبھارت سے آزاد کرانے کے حوالے سے ریفرنڈم ٹونٹی ٹونٹی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ جس کے لئے اگست میں پوری دنیا میں سکھوں کی ووٹ رجسٹریشن کا سلسلہ شروع ہوگا اور نومبر میں ریفرنڈم کیا جائے گا،جس میں بھارت سمیت دنیا بھر میں موجود سکھ برادری اپنا ووٹ کا حق استعمال کرے گی۔
اس حوالے سےسکھ رہنماؤں کے مطابق پنجاب پر بھارت کا قبضہ ہے، جسے آزاد کرانے کے لئے ریفرنڈم مہم کا آغازدہشت گردی یا جرائم سے متعلق نہیں ہے۔ ریفرنڈم ٹونٹی ٹونٹی بلٹ نہیں بیلٹ کے ذریعے ہوگا اور پنجاب کے لوگ اپناحق خود مختاری استعمال کرکے جمہوری عمل کو مکمل کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ریفرنڈم کے لئے پولنگ شمالی امریکا، یورپ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ملائیشیا، فلپائن، سنگاپور، کینیا اور مشرق وسطی کے ممالک اور ہندوستانی پنجاب میں ہو گی۔ایک طرف یہ بھی ہے کہ بی جے پی کے حامیوں نے منصوبہ بنایا ہے کہ سکھ برادری کی ریلیوں کو ناکام بنانے کے لیے لوگ اکھٹے کرکے جوابی مظاہرہ کیا جائے۔
بھارت میں بھی آزاد خالصتان کی تحریک زوروں پر ہے، خصوصاً مغربی ممالک میں بسنے والے سکھ پوری طرح منظم ہوچکے ہیں اور آزاد خالصتان کی گونج دنیا بھر میں سنائی دینے لگی ہے۔ بھارت اس صورتحال پر بری طرح بوکھلا گیا ہے اور سارا ملبہ ایک بار پھر پاکستان پر ڈال رہا ہے۔ امریکا سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے ادارے ’’سکھ فار جسٹس‘‘ کا موقف واضح ہے کہ اس ریفرنڈم کے پیچھے کوئی بین الاقوامی سازش نہیں ہے اور یہ کہ وہ صرف بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے حقوق مانگ رہے ہیں۔ اس حوالے سے فرینڈزآف کشمیر اور سکھ فار جسٹس نے مل کر کشمیر خالصتان ریفرنڈم فرنٹ تشکیل دیا ہے۔سکھوں اور کشمیریوں کے لیے دونوں پلیٹ فارم سے ’ریفرنڈم ٹونٹی ٹوئنٹی‘ مہم شروع کر دی گئی ہے۔
سوئٹرز لینڈ کے شہر جنیوا میں یو این او کے انسانی حقوق آفس کے سامنے دونوں پلیٹ فارمز نے مل کر ایک احتجاجی مارچ اور کنونشن کا انعقاد کیا ،جس میں سکھ ، کشمیری اور پاکستانی کمیونٹی سمیت دوسری اقوام نے بھی شرکت کی ۔ یورپی ممالک سے بسوں کے ذریعے لوگوں کی کثیر تعداد نے اس احتجاج میں شرکت کی اور بارش میں کھڑے ہو کر خالصتان اور کشمیر کی آزادی کے لئے نعرے بازی کی اور دنیا کو باور کروا دیا کہ ہم مل کر خالصتان اور کشمیر کے لئے ریفرنڈم کرائیں گے۔
اس موقعے پر فرینڈز آف کشمیر کی چیئرپرسن غزالہ حبیب، کشمیری رہنماوں علی رضا سید اور زاہد ہاشمی سمیت سکھ رہنماؤں نے خطاب کیا ۔اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق جینوا کے سامنے ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں فرینڈزآف کشمیر،سکھ فار جسٹس کے کشمیر خالصتان ریفرنڈم فرنٹ، ندائے کشمیر اور دیگر تنظیموں نے بھر پور شرکت کی۔
فرینڈزآف کشمیر کی چیئرپرسن غزالہ حبیب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پانچ اگست سے کشمیرکی وادی جیل میں تبدیل ہوچکی ہے یہ جیتا جاگتا انسانی حقوق کا بحران دنیا کو نظر نہیں آرہا۔ کشمیرخالصتان فرنٹ کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ دونوں کمیونیٹیز کو حق خوداردیت دلوائی جائے۔
کنونشن میں مقررین نے کہا کہ بھارت میں فاشسٹ حکومت ہے جہاں اقلیتوں کو حقوق حاصل نہیں دنیا فوری طور پر توجہ دے ۔سکھوں کی نسل کشی ہورہی ہے ۔ساٹس خالصتان موومنٹ کے قانونی مشیر نے حق خودارادیت کے حوالے سےقوانین پر عمل کرنے ضرورت پر زوردیا۔ مظاہرے سے اوتار سنگھ پنوں،ڈاکٹر بخشی سنگھ،ج سبیر سنگھ،جتندر اگروال،پرم جیت سنگھ،جکرم سنگھ،دویندر جیت سنگھ،جگجیت سنگھ،گرپنت سنگھ پنوں،زاہد ہاشمی،علی رضا سید،تنویر اور قدیر نے بھی خطاب کیا۔
سکھ رہنماؤں نے اپنے خطاب میں کہا کہ کانگرس (آئی) جیسی نام نہاد سیکولر جماعت ہو یا کٹر انتہا پسند ہندوؤں کی نمائندہ جماعت ،بی جے پی ،ان سب نے اپنے دور اقتدار میں یہی تاثر دیا کہ بھارت میں سکھوں کی خالصتان کیلئے علیحدگی کی تحریک دم توڑ چکی ہے لیکن سکھ اپنی جستجو کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ،خصوصاً امریکا ، برطانیہ اور یورپی یونین میں آباد سکھوں نے بھارت میں اپنے حقوق اور خود کو ہندوؤں سے بالکل الگ شناخت رکھنے والی ایک قوم کے طورپر منوانے کیلئے بہت محنت کی ہے۔