ملک میں عدالتی اصلاحات اور کارکردگی بہتر بنانے کے لیے قائم نیشنل جوڈیشل کمیٹی کی جانب سے سیشن جج سے ایف آئی آر دائر کرانے کے اختیارات واپس لینے کے فیصلے سے ماتحت عدالتوں‘ پولیس اور شہریوں کو ریلیف ملنا شروع ہوگیاہے۔ضلع حیدرآباد پولیس کے محکمہ شکایات نے گزشتہ7 ماہ میں ایف آئی آر کی 1400 درخواستیں نمٹا دیں،صرف 100 شکایتی درخواستیں ایسی ریکارڈ کی گئیں جن پر ایف آئی آر درج کرائی گئی تھیں جبکہ دیگر درخواستیں فرمائشی طور پر تھیں جو جھوٹے الزامات یا ناقابل درج دفعات کے زمرے میں شمار کی گئیں۔
نیشنل جوڈیشل کمیٹی کے ملکی عدالتی نظام میں اصلاحاتی فیصلے سے نہ صرف ماتحت عدالتوں کا وقت بچا ہے بلکہ پولیس نظام میں (تحقیقاتی افسر) آئی او کا وقت اور توانائی بھی محفوظ ہوگئی ہے اور شہری بھی عدالتوں کے چکر کاٹنے اور وکلا کی بھاری فیس ادا کرنے سے بچ گئے۔ تفصیلات کے مطابق ملک میں عدالتی اصلاحات اور کارکردگی بہتر بنانے کے لیے قائم نیشنل جوڈیشل کمیٹی کے مارچ 2019ء میں ہونے والے ایک اجلاس میں سیشن جج سے ایف آئی آر دائر کرانے کے اختیارات واپس لے لیے گئے تھےجس کے بعدضلعی سطح کے پولیس افسر کو بااختیار بنایا گیا ہے۔
پاکستان کے ضابطہ فوجداری کی دفعات 22 اے‘ بی اور سی میں ترمیم کے بعداب کوئی بھی شخص فریادی بن کر اپنے وکیل کے ذریعے سیشن جج سے 22 اے کا حکم نامہ لے کر جھوٹی ایف آئی آر درج نہیں کراسکے گا۔پہلے پولیس فریادی اور فریق کو بلاکر اپنی تحقیق مکمل کرے گی بعد میں متعلقہ ایس پی سطح کا افسر اپنے دستخط سے ایف آئی آر درج کرنے کے لئے متعلقہ جج کو سفارش کرے گا تو ایف آئی آر درج ہوگی اگر فریادی پولیس کی تحقیق سے مطمئن نہیں ہوگا تو ا س کے پاس ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا آئینی حق ہے۔
ماضی میں ملک میں اگر کوئی شخص پولیس کے پاس ایف آئی آر درج کرانے جاتا تھااور پولیس ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرتی تھی تو وہ شخص خود یا کسی وکیل کے ذریعے سیشن جج کے پاس درخواست داخل کراتا تھا اور سیشن جج کو فوجداری قانون کی شق 22 اے‘ بی اور سی کے تحت یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ ایف آئی آر درج کرنے کا حکم جاری کرسکتے تھے جو کہ ایک ترمیم کے ذریعے واپس لیا گیا ہے۔
ضلعی سطح پر ایس ایس پی آفس حیدرآباد میں قائم پولیس کمپلینٹ آفس میں گزشتہ 7 ماہ میں مجموعی طور پر 1400 شکایتی درخواستیں موصول ہوئیں جن کی تحقیقات کے لئے پولیس کمپلین آفس میں تعینات انسپکٹراور سب انسپکٹر سطح کے 10 افسران تعینات ہیں جوکہ فریادی اور فریق کے درمیان معاملے کی تحقیق کرتے ہیں جس کے بعد ایف آئی آر درج کرانے یا نہ کرانے کے لئے سفارشات مرتب کرکے متعلقہ بالا افسر کو بھجوائی جاتی ہیں۔
گزشتہ 7 ماہ میں ایس ایس پی کمپلین آفس میں 1300 شکایتی درخواستوں کو نمٹا دیا گیا اور صرف 100 درخواستوں پر ایف آئی آر درج کرانے کے لئے سفارش کی گئی۔ ’’جنگ‘‘ کے رابطہ کرنے پر سید ظفر حسین زیدی کا کہنا تھا کہ زیادہ تر 22 اے کے لئے درخواستیں لین دین یا کاروباری لین دین ‘ جعلی چیک‘ گھریلو جھگڑے ‘لڑکی کا گھر سے چلے جانا سمیت نوعیت کی شکایت کے حوالے سے ہوتی ہیں جو کہ الزامات کی حد تک ہوتی ہیں جن میں اکثربے بنیاد اورجھوٹی ثابت ہوتی ہیں۔
22 اے کے حوالے سے شکایتی درخواست گزار کی خواہش ہوتی ہے کہ فریق کو ہتھکڑی لگ جائےتھانے لاک اپ میں قید ہوجائے یا جیل بھجوادیا جائے جس کی وجہ سے محکمہ پولیس میں 22 اے کو فرمائشی ایف آئی آر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
مذکورہ ترمیم سے محکمہ پولیس کے متعلقہ تھانے کے آئی او کا وقت اور توانائی محفوظ ہوئی ہے جب کہ فریادی اور فریقین عدالتوں کے چکرلگانےاور وکلا کی بھاری فیس سے بچ گئے ہیں بصورت دیگر فریادی اور فریق کم از کم 6 ماہ عدالتوں کے چکر کاٹتے ہیں اور ہر پیشی پر ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں۔
دوسری جانب آخر میں 22 اے کی ایف آئی آر کا معاملہ تصفیہ پر ختم ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ایس ایس پی حیدرآباد عدیل حسین چانڈیو کا کہنا تھا پولیس کمپلین سیل میں ایماندار افسران کو تعینات کیا گیا ہے تاکہ شکایتی درخواستوں کو بالکل غیر جانبداری اور ایمانداری کے ساتھ تحقیق کرکے متعلقہ جج کو سفارش بھجوائی جائے۔
پولیس کے شکایتی افسر سے فریادی اور فریقین مطمئن ہو کر جاتے ہیں اور درخواست گزار کے پاس دوبارہ بھی متعلقہ جج اور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا اختیار ہے تاہم پولیس کمپلین آفس میں اس بات کو یقینی بنایاجاتا ہے کہ مکمل طورپر ایمانداری سے معاملے کی تحقیق کرکے آیف آئی آر درج کرنے یا نہ کرنے کی سفارش بھجوائی جائے۔