ڈاکوؤں کے ہاتھوں بھاری جانی نقصان اٹھانے کے بعد پولیس حکام نے ایک مرتبہ پھرڈاکوئوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے۔ ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہ تصور کئے جانے والے شاہ بیلو ،کچے کے جنگلات میں سکھر پولیس کی جانب سے جدید وسائل کے ساتھ گرینڈ آپریشن شروع کیاگیاہے۔ 100سے زائد پولیس کمانڈوبھاری ہتھیاروں اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
ایس ایس پی سکھر، عرفان علی سموں اس آپریشن کی قیادت کررہے ہیں۔ جنگلات میں واقع ڈاکوئوں کی محفوظ پناہ گاہیں مسمار اور نذر آتش کر کے وہاں پولیس چوکیاں قائم کی جارہی ہیں۔پولیس کارروائی کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں 4ڈاکوئوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ چند ماہ قبل شکارپور کی حدود میں اسی جگہ پولیس آپریشن کے دوران ڈی ایس پی اور ایس ایچ او سمیت 6 پولیس اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا تھا۔
اُس وقت دریائے سندھ میں پانی کی سطح بلند ہونے کے باعث پولیس کو آپریشن میں مشکلات کا سامنا تھا تاہم اب دوبارہ سکھر پولیس نےدریا کی صورت حال پرسکون ہونے کے بعد ڈاکوئوں کاقلع قمع کرنے اور کچے کے جنگلات کو ڈاکوئوں سے مکمل طور پر صاف کرنے کے لئے گرینڈ آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔
کچے کے جنگلات میں پولیس کی جانب سے وقتاً فوقتاً آپریشن کئے جاتے رہےجن میں وقتی طور پر تو پولیس کو کامیابیاں حاصل ہوئیں، ڈاکو پسپا بھی ہوئے اوران کے گروہوں کا پولیس حکام کے دعووں کے مطابق صفایا بھی کیا گیا۔ پولیس کے لئے آپریشن کے دوران سب سے زیادہ مشکل کا سبب جو چیز بنتی ہے وہ کچے کے جنگلات کا دیگر اضلاع کی حدود میں شامل ہونا ہے۔ کچے کا یہ علاقہ ٹرائی اینگل یا مثلث کی صورت میں ہے جس کی حدود سندھ کے 5اضلاع سے ملتی ہیں۔
اس بات کا فائدہ اٹھاکر ڈاکو کچے کے علاقوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتے ہیں۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے سندھ، پنجاب اور بلوچستان کی پولیس کی جانب سے کچے کے علاقوں، دریائی جزائر میں ڈاکوئوں، جرائم پیشہ افرادکا مکمل قلع قمع کرنے کے لئے مشترکہ آپریشن کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔ وفاقی حکومت کی مدد سے تینوں صوبوں کے سنگم پر موجود دریائی جزیرے اور کچے کے جنگلات میں آپریشن کیا جانا تھا۔ اس حوالے سے تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور آئی جیزکے درمیان رابطہ بھی ہونا تھا اور آپریشن کو حتمی شکل دی جانی تھی۔
آپریشن کے حوالے سے تینوں صوبوں کے پولیس افسران کا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بھی کشمور میں منعقد ہوا تھا، اجلاس میں آر پی او ڈیرہ غازی خان عمر شیخ، آرپی او بہاولپور عمران محمود، ڈی آئی جی لاڑکانہ، ڈی آئی جی سکھر اقبال دارا، ایس ایس پی کشمور سید اسد رضا شاہ سمیت بلوچستان، جعفرآباد، نصیر آباد، سبی ، ڈیرہ بگٹی کے پولیس افسران نے شرکت کی تھی اور مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران سندھ پنجاب و بلوچستان کے پولیس افسران نے ڈاکوئوں کے خلاف مشترکہ طور سے آپریشن کا اعلان کیا تھا تاہم اس حوالے سے مزید کوئی پیش رفت ہوسکی۔
کچے کے ٹرائی اینگل جزیرے کے حوالے سے سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کا کہنا تھا کہ کشموراور گھوٹکی و دریائی جزائرپر پل کی تعمیرایک اہم منصوبہ ہے، جس کی سفارشات حکومت کو پیش کی گئی تھیں اور حکومت نے اس کی پی سی ون منظور بھی کرلی ہے، اس منصوبے پر حکومت کام کررہی ہے تاہم عملی طور پر پل کی تعمیر کا کام اب تک شروع نہیں کیا جاسکا۔ انہوں نے خیرپور لاڑکانہ پل کی مثال دیتے ہوئے یہ بھی بتایا تھا کہ خیرپور لاڑکانہ کے درمیان پل کی تعمیر کے بعد اس علاقے سے ڈاکوئوں کا مکمل خاتمہ ممکن ہوا ہے۔
سندھ پولیس کو تین ریجن میں تقسیم کرنے کے بعد سکھر ریجن میں تعینات ہونے والے ایڈیشنل آئی جی سکھر ریجن ڈاکٹر جمیل احمد بھی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ کچے کے جنگلات میں انفرا اسٹرکچر کی تعمیر سے ڈاکوئوں کا خاتمہ کرنے میں مدد ملے گی اور کشمور گھوٹکی پل کی تعمیر کے بعد پولیس کے با آسانی نقل و حمل سے ڈاکوئوں کا مکمل طور پر خاتمہ ممکن ہوسکےگا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دریائے سندھ میں سطح آب بلند ہونے کے باعث ڈاکوئوں کے خلاف کارروائیاں کرنے میں پولیس کو بہت زیادہ دشواریوں کا سامنا رہتا ہے، کیونکہ کچے کے یہ جنگلات ٹرائی اینگل کی شکل میں ہیں اور ڈاکو کشتیوں کی مدد سے دوسرے اضلاع میں فرار ہوجاتے ہیں۔
ماضی میں بھی ایس ایس پی تنویر حسین تنیو اور امجد احمد شیخ نے اپنے شاہ بیلو کے کچے کے جنگلات میں آپریشن کئے تھے اور بڑی حد تک ڈاکوئوں کی پناہ گاہوں کو مسمار و نذر آتش کرکے ہموار راستے بنائے گئے تھے۔ پولیس کی جانب سے کچے کے جنگلات میں ڈاکوئوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کرکے ان کی پناہ گاہوں کو نہ صرف ختم کردیا گیا تھا۔ اس دوران متعدد ڈاکو پولیس کے ساتھ مقابلے میں مارے بھی گئے جب کہ بیشترزخمی حالت میں گرفتار بھی ہوئے، جس کے بعد ضلع کے کچے کے تمام علاقوں میں پولیس کی جانب سے مستقل چوکیوں کے قیام کے ساتھ ساتھ پٹرولنگ میں بھی اضافہ کیا گیا۔
کچھ عرصے بعد ڈاکوؤں نے دوبارہ اپنے گروہوں کو منظم کیا اورپولیس کا مقابلہ کرنے کے لیے جدید ہتھیار حاصل کیے جن کی وجہ سے پولیس کا بھاری نقصان ہوا۔ ان نامساعد حالات میں اب دوبارہ سکھر پولیس کی جانب سے ضلع سکھر کی حدود میں آنے والے شاہ بیلو کے کچے کے جنگلات میں آپریشن شروع کیا گیا ہے اور ڈاکوئوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔
ذرائع کے مطابق ،پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ شاہ بیلو کے کچے کے جنگلات میں ڈاکوئوں کے گروہ منظم ہورہے ہیں، جس پر پولیس پارٹی تشکیل دے کر کچے کے جنگلات میں ڈاکوئوں کارروائیوں کا آغاز کیا گیا ہے،اس دوران پولیس اور ڈاکوئوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا، جس میں 4ڈاکوئوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
ڈاکوئوں کے متعدد ٹھکانے تباہ کرکے کچے کے جنگلات میں عارضی پولیس چوکیاں قائم کی گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق آپریشن کا مقصد کچے میں ڈاکوئوں کی پناہ گاہوں کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔ایس ایس پی سکھر عرفان علی سموں نے نمائندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ڈاکوئوں کے مکمل خاتمے تک پولیس کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ کچے کے جنگلات میں آپریشن کے دوران پولیس کے افسران و جوان جنگل کو کھنگال رہے ہیں، ایک وسیع علاقہ ڈاکوئوں سے کلیئر کرالیا گیا ہے،،ان کےگرد گھیرا تنگ کیا جاچکا ہے۔
آپریشن میں پولیس کے کمانڈوز، جدید اسلحے، بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں۔ کچے کے جنگلات میں پولیس کیمپ بھی قائم کیا گیا ہے ۔ آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس اہلکار نہ صرف جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں بلکہ طویل فاصلے تک دیکھنے والی دور بینوں سمیت دیگر آلات بھی ان کے پاس موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچے کے جنگلات ہمیشہ سے ڈاکوئوں کی محفوظ پناہ گاہ رہے ہیں جہاں ڈاکوئوں نے متعدد پناہ گاہیں بنارکھی ہیں اور ڈکیتیوں و اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے بعد وہ ان پناگاہوں میں روپوش ہوجاتے تھے جہاں پولیس کے لئے پہنچنا مشکل اور دشوار رہتا تھا۔اب ان جنگلات میں مستقل سطح پر چوکیوں میں تعینات پولیس افسران اور اہلکار تعینات کیے جائیں گےاور 24گھنٹے ان کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے گا۔