• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہئے! کیا شیڈول ہے اتوار کے لیے۔ آپ تیار ہیں۔ آج بچوں کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے۔

پہلا سوال تو ہوگا مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کے بارے میں۔ کس کے کہنے پر آئے۔ کس کے کہنے پر چلے گئے۔ اتنا قیمتی وقت صرف ہوا۔ کروڑوں روپے جمعیت علمائے اسلام کے بھی لگے۔ حکومت کے بھی۔ حاصل کیا ہوا۔ ملک کتنا آگے بڑھا۔ جمہوریت کتنی مستحکم ہوئی۔ اعلائے کلمۃ الحق کس حد تک ہوا۔ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ میں کتنے انچ سفر آگے چلا۔ جتنے لوگوں نے بھی اس آزادی مارچ سے امیدیں باندھی تھیں، ان کی امیدوں میں سے کتنی پر اوس پڑی اور کتنی حقیقت میں تبدیل ہوئیں۔ اس مارچ کی وجہ سے اسلام آباد اور آس پاس کے کتنے ملازمت پیشہ اور کاروباریوں کو زحمت اٹھانا پڑی۔ معمولات میں خلل پڑا۔ وہ اب سیاستدانوں اور خاص طور پر مذہبی جماعتوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔

دوسرا سوال ہوگا۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صحت اور بیرونِ ملک علاج کی اجازت کے بارے میں۔ کیا آپ کوئی واضح جواب رکھتے ہیں۔ ایک سوال تو میرے پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں کر رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں علاج معالجے کی وہ سہولتیں کیوں نہیں جو امریکہ یورپ میں ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں لوگوں کے پاس پرائیویٹ جہاز ہیں۔ بڑے بڑے مہنگے اسپتال ہیں۔ کسی دل جلے نے کہا کہ سرکاری اسپتال میں جان جانے کا خطرہ۔ پرائیویٹ ہسپتال میں جائیداد جانے کا ڈر۔

ہماری اولادیں انٹرنیٹ پر دیکھتی رہتی ہیں کہ بڑے ملک میں نہیں افریقہ وغیرہ میں بھی اب معیاری اسپتال بن رہے ہیں۔ علاج کے جدید ترین طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔ جڑی بوٹیوں پر ریسرچ ہو رہی ہے۔ درد مندوں کا کہنا ہے کہ انسان کی اصل فکر یہ ہونی چاہئے کہ بیمار ہی کیوں ہوں۔ اکیسویں صدی میں اب تو جینے کے انداز یہی ہیں کہ فطرت کے روبرو رہیں۔ قدرتی غذائوں کا استعمال کریں۔

2020 آرہا ہے۔ صرف ڈیڑھ مہینہ باقی ہے۔ آن لائن جائزہ لیں تو کتنی ہی رپورٹس مل جائیں گی۔ ہمارے ہاں جس طرح بہت سے بقراطوں کو پیشگوئی کا خبط ہوتا ہے۔ نیٹ پر بھی آپ کو یہ لن ترانیاں ملیں گی۔ بہت سے ارسطوئوں کو 2020ء میں پاکستان نظر نہیں آرہا تھا۔ میرے منہ میں خاک۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ اور پاکستانیوں کی استقامت کہ بھارت افغانستان اور امریکہ کی کوششوں کے باوجود پاکستان قائم و دائم ہے اور آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ بلوچستان کے بلوچوں، پشتونوں، سندھ کے قدیم و جدید باشندوں، پنجاب کے زندہ دلوں، جنوبی پنجاب کے بیدار ذہنوں، کے پی کے تاریخ و جغرافیہ کا شعور رکھنے والوں، آزاد جموں و کشمیر کے پہاڑ صفت لوگوں، گلگت بلتستان کے خوش مزاجوں سب کی نیک نیتی اور بلند عزمی کا کرشمہ ہے کہ ہم ہمسایوں کی ثقافتی، سماجی یلغار کے باوجود اپنا تشخص برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

لیکن یہ خبرداری اپنی جگہ ہے کہ 2020انتہائی خطرناک سال ہوگا اور فیصلہ کن بھی۔ پہلے چھ ماہ معیشت میں قیامتیں برپا ہوں گی۔

یہ عجب قیامتیں ہیں تری رہگزر میں گزراں

نہ ہوا کہ مر مٹیں ہم نہ ہوا کہ جی سکیں ہم

اگر ان قیامتوں کا ہم سنجیدگی اور حقیقت پسندی سے مقابلہ کر سکے تو اگلی ششماہی بہت سی خوشگوار حیرتیں لائے گی۔ تقاضا مستقل مزاجی کا بھی ہے۔ اور خالص اقتصادی نقطہ نظر کا بھی۔ جذباتی تقریریں، بے بنیاد وعدے، اپنی قیادتوں پر اندھا دھند اعتبار اگلے چھ ماہ کو بھی قیامت خیز بنا سکتا ہے۔

گزشتہ دنوں ایک عظیم دردمند پاکستانی یوسف ایچ شیرازی اپنی زندگی کی شاندار اننگز کھیل کر لافانی دنیا کی طرف رحلت کر گئے۔ وہ ہزاروں پاکستانیوں کے روزگار کا سرچشمہ تھے۔ کامیاب صنعت کار بھی۔ ان کے ایک صاحبزادے علی شیرازی نے ایک تعزیتی اجتماع میں ان کے آخری دنوں کا ایک جملہ دہرایا کہ وہ ہم سب سے کہہ رہے تھے کہ چند ماہ بعد پاکستان کی معیشت نے بلندیوں کی طرف پرواز کرنی ہے۔ تم لوگوں نے کیا نقد سرمایے کا بندوبست کر رکھا ہے، ماہرین معیشت اور حقیقت پسند صنعت کار یہی اندازہ لگا رہے ہیں۔

ہر چند کہ 2019ہم نے بہت ہی لاپروائی اور غیر ذمہ داری سے گزارا ہے۔ حکومتی پارٹی نے بھی اور دیگر قومی سیاسی جماعتوں نے بھی۔ کس وقت کون سا کام کرنا ہے، اس کے لیے ہم نہ انفرادی حیثیت میں تیاری کرتے ہیں نہ اجتماعی سطح پر۔ پوری دنیا میں ہمارا خطہ ایسا ہے۔ جہاں محسوس ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی آئی ہی نہیں۔ بھارت میں مودی اور ان کے ٹولے کی سرگرمیاں، فیصلے اور بیان بازی دیکھ لیں۔ افغانستان میں امریکہ اربوں ڈالر خرچ کرکے بھی سوچ تبدیل نہیں کر سکا۔ بنگلہ دیش میں بھی صورتحال یہی ہے۔ وہاں کسی وقت بھی ہنگامے شروع ہونے والے ہیں۔ حسینہ واجد شیخ کی انتقامی حکمرانی بددلی پیدا کر رہی ہے۔ وہاں کسی وقت بھی کوئی المیہ رونما ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں تو یقیناً حکومت، اپوزیشن، ادارے، کوئی بھی وہ کام نہیں کر رہا، جو کرنے کے ہیں۔ ہمارے علما، سیاستدان، تجزیہ کار، میڈیا مالکان، یونیورسٹیاں پہلے سے کوئی تیاری نہیں کرتے۔ ہمارے دوست ملک چین نے بہت سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ عملی طور پر سرمایہ بھی لگایا ہے۔ مستقبل کی صورت گری بھی کی ہے۔ لیکن یہ پیش بینی نہ تو عمرانی حکومت کے کسی وزیر، اہلکار میں دکھائی دے رہی ہے نہ ہی ن لیگ اور پی پی پی کی اعلیٰ صفوں میں۔

وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے

وسائل ہیں، مسائل ہیں، امکانات ہیں، مواقع ہیں لیکن ہم نے کوئی ایسا نظام نہیں بنایا ہے جس کے تحت ہر لمحے وہ کام ہوتا رہے جو اس لمحے کا تقاضا ہے۔ 22کروڑ کی تقدیر سامنے رکھنے کے بجائے ہم چند افراد کی تقدیر سنوارنے یا بگاڑنے میں الجھے رہتے ہیں۔ صدیاں ہماری مٹھی میں ریت بن کر گرتی رہتی ہیں۔

2020 کے دامن میں قیامتیں بھی ہیں۔ نعمتیں بھی۔ انتخاب ہمیں کرنا ہے۔

تازہ ترین