• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کو دو طرح کے دہشت گردوں نے نقصان پہنچایا ہے ایک گروہ ”تحریک ِ طالبان پاکستان“ ہے جس کے درجنوں مختلف کمانڈر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سیکورٹی فورسز کے مقابلے پر مورچہ زن ہیں۔ دوسرا گروہ ”لشکر ِ جھنگوی“ ہے جو ملک میں اہل ِ تشیع کا خون بہا رہا ہے۔تحریک ِ طالبان پاکستان کے دہشت گرد 2008ء سے لے کر اب تک مختلف تخریبی کارروائیوں میں تیس ہزار شہریوں اور تین ہزار کے قریب سیکورٹی کے جوانوں کو ہلاک کر چکے ہیں۔ یہ تحریک پہلے سوات میں منظر ِعام پر آئی ۔ آج یہ تمام وزیرستان ایجنسی میں پھیل چکی ہے۔ لشکر ِ جھنگوی بنیادی طور پرپنجاب کے شہر جھنگ میں اپنی اساس رکھتا ہے لیکن گزشتہ برس سے، جب اس نے پانچ سو سے زیادہ اہل ِ تشیع کا خون بہایا، اس نے اپنی کارروائیوں کا سلسلہ کراچی سے لے کر کوئٹہ تک پھیلا دیا ہے۔
اگرچہ تحریک ِ طالبان اور لشکر ِ جھنگوی کا طریقہ ٴ کار ایک سا ہے… خودساختہ دھماکہ خیز مواد، خودکش حملے، گھات لگاکر فائرنگ … لیکن ان کے مقاصد مختلف ہیں۔ تحریک ِ طالبان پاکستان بنیادی طور پر پاکستان، اس کے شہریوں، اس کے آئینی، قانونی اور سیاسی نظام، اس کی حکومت اور ریاستی ایجنسیوں کے خلاف جنگ کر رہی ہے ۔ اس کی قوت کا زیادہ تر ارتکاز فاٹا اور خیبر پختونخوا میں ہے لیکن یہ ملک کے دیگرصوبوں میں بھی اپنی خطرناک موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ دوسری طرف لشکر ِ جھنگوی کا ہدف صرف اہل ِ تشیع ہیں۔ حالیہ برسوں میں اس کی کارروائیاں زیادہ تر سندھ، بلوچستان اور گلگت بلتستان میں دیکھنے میں آئی ہیں جبکہ پنجاب، جہاں اس کی بنیادیں ہیں اس نے صرف دس فیصد کارروائیاں کی ہیں۔ ترجیحات میں اس تفاوت کے باوجود تحریک ِ طالبان پاکستان اور لشکر ِ جھنگوی میں اشتراک ِ عمل پایا جاتا ہے اور وہ کارروائیوں کے لئے ایک دوسرے کو ”افرادی اور تکنیکی“ معاونت فراہم کرتے رہتے ہیں جبکہ اس دوران مشرق ِ وسطیٰ اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے آنے والے القاعدہ کے ”ماہرین“ کی فنی خدمات بھی ان کو حاصل رہتی ہیں۔ ان میں مسلکی ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے ۔ یہ دونوں گروہ نظریاتی طور پر انتہا پسند سنی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان دونوں کی صفوں میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے جہادی عناصر موجود رہتے ہیں۔ ان دونوں کا ماضی یا حال میں فاٹا یا افغانستان میں سرگرم ِ عمل افغان طالبان سے تعلق رہا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان دونوں کی فعالیت میں پاکستان کے خفیہ اداروں کا کسی نہ کسی سطح پر ہاتھ ہے کیونکہ وہ ان کو کشمیر میں بھارت کو زک پہنچانے اور موجودہ دور میں افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف بر سرپیکار افغان طالبان کی معاونت کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔
اگر ہم اس انتہا پسندی سے نمٹنا چاہتے ہیں تو ان تنظیموں کے اسٹرٹیجک روابط پر غور کرنا ضروری ہے۔ لشکر ِ جھنگوی کے خلاف روایتی دکھاوے کی کارروائیوں کے بجائے سیاسی اتفاق ِ رائے، موثر پولیس فورس،انسداد ِ دہشت گردی کے لئے بنائے گئے موثر قوانین، سول اور ملٹری اداروں کے درمیان معلومات کے تبادلے کے ساتھ میدان میں اترنا ضروری ہے تاکہ شہریوں کی جان کو محفوظ بنایا جا سکے۔ تاہم فاٹا میں مورچہ بند طالبان سے نمٹنے کیلئے باقاعدہ فوجی کارروائی، جس کو سیاسی اور انتظامی معاونت حاصل ہو، کی ضرورت ہے۔ تاہم آج جبکہ پاکستان لہو رنگ ہے، ان دہشت گرد تنظیموں سے نمٹنے کے لئے قومی سیاسی سطح پر کوئی اتفاق ِ رائے نہیں پایا جاتا۔ ان کے خلاف جاری فوجی کارروائی کسی واقعے کے رد ِ عمل میں نیم دلی سے کی جاتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ سست آئینی اور انتظامی مشینری بھی مطلوبہ نتائج کے راستے میں رکاوٹ ہے۔
ہمارے ہاں سول ملٹری تعلقات میں موجود مسائل کا اظہار حالیہ دنوں پیش آنے والے دو واقعات سے ہوتاہے۔ فوج تحریک ِ طالبان پاکستان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنا چاہتی ہے لیکن وہ عوام اور حکومت کی حمایت کے بغیر ان جنگجوؤں کے خلاف دستوں کو متحرک نہیں کرنا چاہتی لیکن حکومت اس ضمن میں فوج کے ساتھ کھڑی ہونے کے لئے تیار نہیں ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ فوجی آپریشن کے لئے اسے عوام سے حمایت نہیں ملے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زیادہ تر لوگ پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اپنانے کے حق میں ہیں کیونکہ ان کو غلط فہمی ہے کہ پاکستانی طالبان کی اندرون ملک کارروائیاں دراصل امریکی ڈرون حملوں کا ردِعمل ہیں۔ اس لئے جب 2014ء میں امریکی اس خطے سے چلے جائیں گے تو یہ تحریک بھی تحلیل ہو جائے گی۔ اس غلط سوچ کو پھیلانے میں عمران خان اور میڈیا کے ایک دھڑے کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ اے این پی جو کہ ایک سیکولر پارٹی ہے اور اس نے ہمیشہ سے ہی ان اسلامی انتہا پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کی بات کی ہے، کوگزشتہ ہفتے پشاور میں ہونے والی ” کل جماعتی کانفرنس“ بلانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ تاہم اس کانفرنس کے شرکاء نے بھی متفقہ طور پر طالبان کے ساتھ بات چیت کا راستہ اختیار کرنے پر زور دیا۔ گویا سیاسی قیادت ابھی بھی ان کے خلاف فوجی طاقت استعمال کرنے کے حق میں نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں عام انتخابات ہوا چاہتے ہیں اور…کوئی سیاسی جماعت طالبان کو مشتعل کرکے اس کا ہدف بننے کا خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس سے زیادہ موقع پرستی کا مظاہرہ دیکھنا محال ہے۔
لشکر ِ جھنگوی کے خلاف درکارآپریشن کے حوالے سے بھی اسی طرح کا تذبذب پایا جاتا ہے۔ کسی صوبے کے پاس انتظامی سطح پر لشکر سے نمٹنے کے لئے مالی اور افرادی قوت، جو دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کیلئے تربیت یافتہ ہو، موجود نہیں ہے بلکہ ان کے روایتی پولیس کے نظام کے پاس موثر تفتیش کی سہولت بھی موجود نہیں ہے چنانچہ پنجاب پولیس اور یہاں کے سیاست دانوں نے لشکر کی کارروائیوں سے اغماض برتنے کا طریقہ اپنایا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور لشکر ِ جھنگوی کے حامیوں کے درمیان سیاسی مفاہمت بھی اس حد تک پائی جاتی ہے کہ وہ کم از کم چالیس حلقوں میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی انتخابی حمایت کریں گے اور یہ کہ اس کے سیاسی قائدین کو ہدف نہیں بنایا جائے گا۔
یہ صورتحال کراچی میں اور زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ اس عظیم شہر میں پولیس اور حکومت مکمل طور پر غیر فعال ہیں اور یہاں جرائم پیشہ گروہ، دہشت گرد تنظیمیں اور انتہا پسند معاملات کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہاں انتظامیہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ بلوچستان میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء، پائپ لائن کی سیاست، مختلف اسلامی ممالک کی پراکسی جنگ ، فرقہ وارانہ کشیدگی اور علیحدگی پسندوں نے ریاست کی عملداری کے لئے سنگین چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ ان حالات میں بدترین بات یہ ہے کہ پاکستانی فوج کو شک ہے کہ بلوچستان میں مقیم ہزارہ برادری کے لوگ طالبان مخالف ہیں اور ان کا جھکاؤ ایران کی طرف ہے۔
ملک بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے حکومت کو محض اشک شوئی کی خاطر کچھ تبادلے وغیرہ کرنے پڑے۔ اس کے ساتھ ساتھ محض دکھاوے کی خاطر کچھ چھاپے بھی مارے گئے تاکہ عوام کو لگے کہ حکومت کچھ کررہی ہے۔ تاہم خاطر جمع رکھیں، کچھ نہیں ہورہا ہے اور اب شاید ان نیم دلی سے کئے گئے اقدامات کی ضرورت بھی نہیں ہے…بہت دیر ہو چکی ہے۔ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ پوری سیاسی قیادت ایک صف میں کھڑی ہوکر سیکورٹی اداروں کی حمایت کرے اور صوبائی سطح پر متحرک اور فعال فورس قائم کی جائے جو دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے تربیت یافتہ ہو۔ اگر روایتی طرز ِ عمل جاری رہا تو پاکستانیوں کا خون بہتا رہے گا۔
تازہ ترین