• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:مولانا ضیاء المحسن طیب۔ برمنگھم
میرے زیر مطالعہ حجتہ الاسلام حضرت امام غزالیؒ کی کتاب ’’احیاء العلوم‘‘ ہے۔ امام غزالی اسلامی دنیا کا ایک بہت بڑا نام ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو فلسفہ، تصوف، فقہ، اسرار شریعت و طریقت، اخلاق، حکمت، تزکیہ نفس کے ساتھ ساتھ حسن تحریر میں بھی خوب دسترس دی تھی۔ ہر دور کے اہل علم و دانش مشاہیر، علما و صوفیا آپؒ کی اس کتاب ’’احیاء العلوم‘‘ کی تعریف میں رطلب اللسان ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بڑے بڑے اہل علم و قلم اس کتاب کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں۔امام غزالیؒ نے اس کتاب میں ایک باب ’’ہم نشینی اور معاشرت کے آداب‘‘ کا باندھا ہے، اس میں آپ نے لوگوں کو مخاطب ہوکر بتایا ہے کہ معاشرت کے آداب کیا ہیں۔ آپ لکھتے ہیں۔ ’’دوست دشمن ہر شخص سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملو، نہ انہیں ذلیل کرو اور نہ ان سے ڈرو، وقار کے ساتھ رہو مگر تکبر اور تفاخر سے اجتناب کرو، تواضع اختیار کرو، اپنا ہر کام اعتدال سے کرو، افراط و تفریط کسی بھی کام میں پسندیدہ نہیں ہے۔ راہ چلتے ہوئے ادھر ادھر مت دیکھو، نہ بار بار پیچھے مڑ کر دیکھو، اپنے سامنے دیکھو، اگر کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہوں تو ان کے پاس کھڑے مت ہو، بیٹھنا ہو تو بیٹھ جائو، ورنہ الگ ہوجائو، مجلس میں اس طرح نہ بیٹھو کہ لوگ سمجھیں کہ تم مجلس سے اٹھنا چاہ رہے ہو، مسلسل اور مرتب گفتگو کرو، مجلس میں بیٹھ کر انگلیاں مت چٹخارو، داڑھی کے بالوں اور انگوٹھی سے نہ کھیلو، نہ دانتوں میں خلال کرو، نہ کان اور ناک میں انگلی ڈال کر میل کچیل صاف کرو، اگر کوئی شخص بات کررہا ہو تو خاموش ہوکر سنو، تعجب کے اظہار میں مبالغہ مت کرو، دوبارہ کہنے کیلئے درخواست نہ کرو، ہنسنے ہنسانے کی باتوں اور قصوں، کہانیوں پر خاموش رہو، مجلس میں اپنے بیٹوں یا خاندان کی تعریف مت کرو، عورتوں کی طرح زیب و زینت نہ کرو، نہ غلاموں کی طرح گندے رہو، تیل اور سرمہ لگانے میں زیادتی نہ کرو، غیروں کا تو کیا ذکر، اپنے بیوی، بچوں کو بھی مت بتلائو کہ تمہارے پاس کتنا مال ہے، کیونکہ اگر مال کم ہوا تو تم ان کی نظروں سے گر جائو گے اور اگر زیادہ ہوا تو وہ حسد کریں گے اور تمہیں پریشان کریں گے اور تمہاری موت کے خواہاں ہوں گے۔ اہل و عیال پر اتنی سخت نہ کرو کہ وہ تمہارے قریب نہ آئیں اور نہ اتنی نرمی کرو کہ سر پر چڑھ بیٹھیں، اپنے ماتحتوں اور نوکروں کے ساتھ ہنسی مذاق مت کرو کیونکہ اس سے تمہارا وقار کم ہوگا، جلد بازی سے احتراز کرو، گفتگو کے دوران ہاتھ سے اشارے مت کرو جو لوگ پیچھے بیٹھے ہوں انہیں گردن موڑ کر مت دیکھو، گھٹنوں کے بل مت بیٹھو، غصہ کی حالت میں گفتگو مت کرو۔مجلس کے آداب میں سب سے پہلا ادب مجلس والوں کو سلام کرو، زیادہ لوگ ہوں تو سب سے مصافحہ کی کوششیں نہ کرو، اجتماعی سلام پر اکتفا کرو، مجلس ختم ہونے پر فرداً فرداً سب سے مصافحہ کرو، مجلس میں لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے جانے کی کوشش نہ کرو، جہاں جگہ مل جائے وہاں بیٹھ جائو، بیٹھنے میں جو شخص قریب ہو اسے سلام کرو، اس کی خیریت و عافیت دریافت کرو، راستے میں مت بیٹھو، اکثر لوگوں کی عادت ہوتی ہے وہ راستے میں بیٹھ جاتے ہیں، اس سے احتراز کرو، مکمل احتراز کرو، عوام کے ساتھ اگرچہ کوئی غرض نہ ہو تب بھی کم ہی ملنا جلنا رکھو، قبلہ کی طرف مت تھوکو، مذاق مت کرو، مذاق حماقت کی علامت ہے، مذاق نہ عقل مند سے کرو اور نہ بے وقوف سے۔عربوں کے یہاں جب کوئی مہمان آتا ہے تو وہ ان الفاظ کے ساتھ استقبال کرتے ہیں۔ ’’مرحبا اہلاً و سہلاً‘‘ یہ تین لفظ ہیں جو مہمان نوازی کے تمام آداب کو محیط ہیں۔ مرحبا کے معنی یہ ہیں کہ تمہار لیے ہمارے مکانوں میں بھی وسعت ہے اور دلوں میں بھی بڑی گنجائش ہے۔ اہلاً کا مطلب یہ ہے کہ تم ہمارے گھر میں آئے ہو یہاں کے درو دیوار تمہارے لیے پیار و محبت کا پیغام رکھتے ہیں۔ تم اس گھر کے ماحول کو اپنے ہم آہنگ پائو گے اور کسی طرح کی وحشت محسوس نہ کروگے۔ ’’سہلا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے یہاں ہر طرح کی سہولت میسر رہے گی، جو تم چاہوگے اور جس چیز کا حکم دوگے ہمیں اس کے پورا کرنے میں کوئی دقت نہ ہوگی۔ ’’دوست کو اپنے مساوی سمجھنا ادنیٰ درجہ ہے، کمال درجہ یہ ہے کہ دوست کو اپنی ذات پر ہر اعتبار سے فضلیت دے۔‘‘’’بہت سے کفار کفر کی علامتوں سے خالی ہوتے ہیں، جس طرح بہت سے مسلمان اسلام کی علامتوں سے خالی نظر آتے ہیں۔‘‘’’عبادت گزار‘‘ حضرت عیسیٰ نے ایک شخص سے دریافت کیا کہ تم کیا کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ میں عبادت کرتا ہوں۔ آپؑ نے پوچھا اگر تم عبادت میں مشغول رہتے ہو تو تمہاری کفالت کون کرتا ہے، اس نے عرض کیا کہ میرا بھائی میری روزی روٹی کا بندوست کرتا ہے۔ آپؑ نے فرمایا تمہارا بھائی تم سے زیادہ عبادت گزار ہے۔ تمام لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئو اور ہر شخص کے ساتھ اس کی اہلیت کے مطابق گفتگو کرو، جاہل کے ساتھ فقہ و علم کی باتیں کرنا اور کسی کم فہم کند ذہن کے ساتھ نکتہ رسی اور دقیقہ سنجی کا ثبوت دینا بجائے خود جہالت ہے، اس میں مخاطب اور متکلم دونوں کیلئے ایذا ہے۔ مجلس میں جب بڑے اور بوڑھے موجود ہوں تو ان کی اجازت کے بغیر گفتگو نہ کرو۔مال دار لوگوں کے پاس بیٹھنے سے حتی الامکان گریز کرو، غریبوں، مسکینوں اور یتیموں کے ساتھ میل جول رکھو، مسکین اور یتیم اپنی غریبی اور مفلسی کے باوجود معزز اور مکرم ہیں۔ جب کسی مریض کی عیادت کیلئے جائو تو اس کے پاس زیادہ دیر نہ ٹھہرو، عیادت بے حد مختصر اور ہلکی ہو، مریض کے پاس زیادہ دیر بیٹھنا مشقت اور تکلیف کا باعث بن جاتا ہے، مال و دولت، عزت و جاہ کی حرص مت کرو، اس سے ذلت و رسوائی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا، اگر تم اس بات سے مستغنی ہو یعنی عزت وجاہ سے تو تب بھی غرور مت کرو، ایسا نہ ہو کہ خدا تعالیٰ تمہیں ان کا ضرورت مند بنادے اور تمہارا سارا غرور خاک میں مل جائے، اگر لوگ تمہاری عزت کریں تو خدا وند قدوس کا شکریہ ادا کرو کہ اس نے لوگوں کے دلوں میں تمہارے لیے عزت ڈال دی ہے، اگر کوئی آدمی تمہاری عزت نہ کرے تو اس سے یہ مت کہو کہ تو میری قدر و منزلت اور حیثیت سے ناواقف ہے۔
تازہ ترین